یمن میں امن معاہدے کے بعد کیا ہو گا؟

اس معاہدے کے بعد ایک سعودی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ریاض ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا سے بھی رابطے میں ہے تاکہ یمن میں جاری جنگ کو ختم کیا جا سکے۔

ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زائد النہیان یمن کے صدر عبدربو منصور ہادی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ریاض معاہدے کی تقریب میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں (اے ایف پی)  

یمن کی خانہ جنگی کے اندر جاری ایک اور خانہ جنگی کا اختتام ہوتا نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سعودی عرب کا حمایت یافتہ امن معاہدہ ہے جو یمن کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ دنوں ہونے والے ’معاہدہ ریاض‘ کے بعد یمن کی عالمی طور تسلیم شدہ حکومت کی عدن واپس اور حکومتی حمایت یافتہ گروہوں اور جنوبی علیحدگی پسند ملیشیا دونوں ملک کی وزات دفاع اور وزات داخلہ کے زیر اثر ہوجائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ اس معاہدے سے یمن میں جاری جنگ پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ یمن جنگ کو اقوام متحدہ نے بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔

سعودی عرب کا کیا ہوگا؟

یمن معاہدے کے بعد سعودی عرب کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے۔ گذشتہ ماہ سعودی عرب کے اتحادی متحدہ عرب امارات نواز گروہوں نے عدن شہر اور اس کے اہم مقامات سعودی فورسز کے حوالے کیے تھے جن میں بین الااقوامی ہوائی اڈا اور فوجی ائیر بیس بھی شامل تھا۔

یمن کی سعودی حمایت یافتہ حکومت نے متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا تھا وہ عدن میں ’علیحدگی پسندوں کی بغاوت‘ کی حمایت کر رہا ہے۔

کیا حوثیوں کے ساتھ امن اگلا قدم ہو گا؟

سعودی اور یمنی حکام نے معاہدہ ریاض کی تعریف کرتے ہوئے اسے جنگ ختم کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیا ہے۔

اس معاہدے کے بعد ایک سعودی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ریاض ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا سے بھی رابطے میں ہے تاکہ یمن میں جاری جنگ کو ختم کیا جا سکے۔

عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم 2016 سے حوثیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ یمن میں امن کو ممکن بنایا جا سکے۔‘

حوثیوں نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تاہم انہوں نے یمن میں امن کی خاطر سعودی عرب پر حملے روکنے کی پیش کش تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے معاہدہ ریاض کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’یہ معاہدہ یمن میں امن کا دروازہ کھول دے گا۔‘

اس معاہدے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت اچھا آغاز ہے۔ سب مل کر کام کریں تاکہ ایک حتمی معاہدہ ہو سکے۔‘

ایران کا کیا ہو گا؟

سعودی عرب حوثیوں پر ایران کے اثرورسوخ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ حوثیوں کی جانب سے حملے روکنے کی پیشکش کو ایران کی گرفت کمزور ہونے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ستمبر میں سعودی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری حوثیوں نے قبول کی تھی لیکن امریکہ اور سعودی عرب نے ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی، گو کہ تہران ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

جنوبی یمن میں بدامنی کے باعث حوثیوں کے خلاف بطور اتحادی لڑنے والے سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ ملیشیا ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے تھے۔

معاہدہ ریاض کے مطابق 24 وزرا کی کابینہ تشکیل دی جائے گی جس میں جنوبی یمن کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا