تعلیمی اداروں میں طلبہ کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی

محکمہ تعلیم پنجاب نے یہ قدم نوجوان نسل کو تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال اور اس کی لین دین سے بچانے کے لیے اٹھایا ہے۔

12 جولائی 2018 کی اس تصویر میں اسلام آباد کے ایک کیمپس میں   ایک طالبہ موبائل فون استعمال کر رہی ہے۔ (تصویر: اے ایف پی)

محکمہ تعلیم پنجاب نے صوبے کے تمام سرکاری وغیر سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

اس نوٹیفکیشن کے مطابق تعلیمی اداروں میں کسی بھی طریقے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی پر بھی پابندی ہو گی اور 16 سال تک کے بچوں کو موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اس دستاویز کے مطابق صوبائی حکومت نے یہ قدم نوجوان نسل کو تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال اور اس کی لین دین سے بچانے کے لیے اٹھایا ہے۔ نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متعلقہ ادارے اس پابندی کا اطلاق فوراً  کریں۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ لاہور پولیس نے ایک کریک ڈاؤن کے دوران 330 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا تھا جو تعلیمی اداروں میں منشیات مہیا کرتے تھے۔

صوبائی حکومت کے اس حکم پر مختلف قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے طلبہ اور اساتذہ سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس پابندی کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم حسن جوئیا کا کہنا ہے کہ اس نوٹیفکیشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس پر عمل درآمد ناممکن ہے۔

حسن کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران موبائل فون کا استعمال ہر طالب علم کرتا ہے کیونکہ ہم نے اپنے مضمون کے حوالے سے جو بھی معلومات لینی ہوتی ہیں وہ ہم موبائل پر گوگل کے ذریعے حاصل کر لیتے ہیں۔‘ ان کے خیال میں یہ ایک غلط فیصلہ ہے اور اس کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’منشیات کا استعمال اس طرح نہیں روکا جا سکتا، جنہوں نے منشیات حاصل کرنی ہیں وہ موبائل فون کے بغیر بھی حاصل کر لیں گے۔‘

محکمہ تعلیم پنجاب کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹیفکیشن


طالب علم محمد شناور نے اسے ایک ’بے وقوفانہ فیصلہ‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے طلبہ زیادہ ہیں جو منشیات استعمال نہیں کرتے اور وہ فون گھر والوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے یا یونیورسٹی آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ  کو کال کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان طلبہ کا کیا بنے گا؟‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ منشیات کی روک تھام کے لیے اگر آپ موبائل فون پر پابندی لگا رہے ہیں تو پھر بسوں اور گاڑیوں پر بھی لگا دیں کیونکہ منشیات لینے آپ کسی نہ کسی سواری پر تو جائیں گے، اس طرح ملک نہیں چلتے۔‘

طالب علم حسن بن عامر کے خیال میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر تعلیمی ادارے میں اپنا ایک نمائندہ بٹھائے جو اس مافیا کو گرفت میں لائے جو تعلیمی اداروں میں منشیات فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پابندی لگ بھی گئی تو بہت کم طلبہ من و عن اس پر عمل کریں گے، باقی کسی نہ کسی طرح موبائل استعمال کرتے ہی رہیں گے اور انہیں یہ روک نہیں پائیں گے۔‘

اساتذہ کیا کہتے ہیں؟

سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن، بیکن ہاؤس یونیورسٹی لاہور کے سابق ڈین ڈاکٹر مہدی حسن نے موبائل فون کے ذریعے منشیات کے پھیلاؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب موبائل فون نہیں تھے، ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی تب بھی منشیات کا استعمال کیا جاتا تھا، اب بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سمارٹ فون کے استعمال سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے ، کیونکہ کلاس میں اور امتحانی مراکز میں سمارٹ فون کے ذریعے نقل کا رحجان کافی حد تک بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار متاثر ہوا ہے۔ بچے انگریزی کا ایک لفظ بولنے کے قابل نہیں ہوتے مگر اسائنمنٹ گوگل سے کاپی پیسٹ کرکے بہترین لکھ کر لاتے ہیں جس میں انہیں ان کا سمارٹ فون مدد فراہم کرتا ہے۔‘

ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی اداروں میں سمارٹ فون پر پابندی لگا دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ تاہم ان کے خیال مین نان سمارٹ فون کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ بچے گھر والوں سے رابطے میں رہ سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پرفیسر فہد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تعلیمی اداروں میں پہلے تو چیک کرنا پڑے گا کہ کیا طلبہ موبائل فون آنے سے پہلے زیادہ منشیات کا شکار تھے یا یہ رجحان موبائل فون  آنے کے بعد بڑھا ہے؟‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’میں بالکل اس چیز کے حق میں نہیں ہوں کہ کسی چیز پر بالکل پابندی دی جائے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اگر آپ ایک بچے کو 16 برس تک ٹیکنالوجی سے دور رکھیں گے تو وہ کس طرح آگے بڑھے گا؟حکومت کو چاہیے کہ وہ بچوں، والدین اور اساتذہ کو تربیت دیں کہ وہ ٹیکنالوجی کا محفوظ طریقے سے کس طرح استعمال کریں۔ ٹیکنالوجی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لیے ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ ایسے میں نظریں چرانا یا چیزوں پر پابندی لگا دینا حل نہیں ہے۔ یہ ناممکن ہے۔‘

پروفیسر محمود نے مزید کہا کہ ’ہمارے ہاں بچوں کے لیے کوئی چینل نہیں جہاں ان کو تعلیم دی جاسکے، وہ بھی والدین کے ساتھ ڈرامے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے چینلز یا پروگرامز ہونے چاہییں جہاں بچوں اور والدین کو بتایا جائے کہ جدید ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال میں لایا جائے۔‘

کیا والدین اس فیصلے سے خوش ہیں؟

امبر کاشف ایک ہاؤس وائف ہیں اور ان کے دونوں بچے کالج جاتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو 16 برس کی عمر کے بعد موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت دی تھی مگر ان کی بیٹی کچھ عرصہ پہلے اپنے سیل فون پر دھونس دھمکیوں (Bullying) کا شکار ہوئی جو اُن کے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک پہنچ گئی، جس کے بعد ان کی بیٹی پریشان بھی رہیں اور تمام سماجی رابطے ختم کر دیے۔ جس کے بعد انہوں نے بچوں کے موبائل فون ان سے لے لیے۔

 امبر کے خیال میں منشیات کے علاوہ ہراسانی کے واقعات کی جڑ بھی سیل فون ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ اب وہ اور ان کے شوہر سکول انتظامیہ سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کا بیٹا موبائل فون استعمال کرتا ہے مگر وہ جانتا ہے کہ استعمال کیسے اور کتنا کرنا ہے مگر والدین کی حیثیت سے وہ ان سے بھی رابطے میں ہیں اور دوستوں سے بھی۔ ان کے خیال میں فون آج کل کے دور میں بچوں سے رابطے میں رہنے کے لیے ضروری ہے مگر والدین اس کے استعمال کو پورا مانیٹر کریں۔

قمر النسا خان ہانگ کانگ میں رہتی ہیں اور ان کے بچے بھی سکول کالج جاتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے قمر کا کہنا تھا: ’ہمارے ہاں زندگی ویسی نہیں جیسی پاکستان میں ہے۔ یہاں فون ایک ضرورت ہے کیونکہ بچوں کی آدھی سے زیادہ پڑھائی فون پر ہوتی ہے اور ان کے اساتذہ بھی انہیں الرٹس اسی پر بھیجتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں والدین کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ بچوں کے استعمال کی ڈیوائسز کو کس طرح محفوظ بنائیں اور انہیں سکیورٹی لاک کس طرح لگائیں۔‘

قمر نے مزید بتایا کہ وہاں ریسکیو کے نام سے ایک ایپ ہے جس کے ذریعے والدین یہ چیک کر سکتے ہیں کہ بچوں نے کس ایپ پر کیا دیکھا یا کونسی ایپ استعمال کی اور کہاں لاگ اِن کیا وغیرہ۔ ان کے خیال میں پاکستان میں بھی موبائل فون پر پابندی لگانے کی بجائے بچوں اور والدین کو ان کے صحیح استعمال کی تربیت دی جانی چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل