پشاور میں نو سال بعد دوبارہ قومی کھیلوں کا میدان سج گیا

نیشنل گیمز میں کُل 33 کھیل شامل ہیں جن میں تقریباً سات ہزار کھلاڑی اور 14 یونٹس حصہ لے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلے ہیں۔

نیشنل گیمز   16 نومبر تک جاری رہیں گے (تصویر انیلا خالد)

پشاور کے قیوم سٹیڈیم کمپلیکس میں آج سے 33ویں قومی کھیلوں (نیشنل گیمز) کا آغاز ہو گیا ہے، جسے کھلاڑیوں اور یونٹس کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلے قرار دیا جارہا ہے۔

نیشنل گیمز کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے بھی بطور مہمانِ خصوصی شرکت کرنی تھی، تاہم ایسا نہ ہوا، جس پر کھلاڑیوں اور انتظامیہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کھیلوں سے پوری دنیا کو امن کا پیغام جاتا ہے لیکن وزیراعظم نے تقریب میں شرکت نہ کرکے نہ صرف انہیں مایوس کیا بلکہ اتنے بڑے نیشنل گیمز کی وقعت بھی کم کر دی۔ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ایونٹ میں کُل 33 کھیل شامل ہیں جن میں تقریباً سات ہزار کھلاڑی اور 14 یونٹس حصہ لے رہے ہیں۔ ان 14 یونٹس میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاوہ آرمی، نیوی، ایئرفورس، پولیس، واپڈا، ریلوے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ادارے بھی شامل ہیں۔

نیشنل گیمز سیکریٹریٹ کے منتظم محمد امجد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نیشنل گیمز ہر صوبے میں باری باری منعقد ہوتے ہیں۔ 33 ویں نیشنل گیمز کی میزبانی بلوچستان کو کرنی تھی تاہم وہاں حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا کو یہ بیڑہ اٹھانا پڑا۔

انہوں نے بتایا: ’کھلاڑیوں نے بہت عرصہ انتظار کیا اور آہستہ آہستہ وہ مایوس ہوتے جارہے تھے۔ لہذا خیبر پختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن نے صوبائی حکومت سے درخواست کی کہ آیا وہ یہ گیمز اپنے صوبے میں لانے کے متمنی ہیں؟ وہاں سے مثبت جواب ملنے پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے درخواست کی گئی اور یوں پشاور میں نو سال کے بعد ایک مرتبہ پھر نیشنل گیمز منعقد کیے جا رہے ہیں۔‘

اس ایونٹ میں کُل 33 کھیل شامل ہیں جن میں تقریباً سات ہزار کھلاڑی اور 14 یونٹس حصہ لے رہے ہیں۔ (تصویر: سپورٹس اینڈ ٹوررزم ڈیپارٹمنٹ)


محمد امجد خان نے بتایا کہ اس پروجیکٹ پر تقریباً 22 کروڑ کا خرچہ آیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام لوگ بھی ان کھیلوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے تاہم اس کے لیے ضروری ہوگا کہ تماشائی اپنا قومی شناختی کارڈ ساتھ لے کر آئیں۔

واضح رہے کہ پشاور میں آخری مرتبہ نیشنل گیمز 2010 میں ہوئے تھے تاہم یہ وہ دور تھا جب پشاور میں نہ صرف دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا تھا بلکہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی عوام کو غمزدہ کر دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ 2008 میں قیوم سٹیڈیم ہی کے گیٹ پر خودکش دھماکے کے بعد کھیلوں کے میدان تقریباً ویران ہو گئے تھے۔

اس تمام تر صورت حال کی وجہ سے 2010 میں 31 ویں نیشنل گیمز کا نہ تو کھلاڑی اور نہ ہی تماشائی پوری طرح لطف اٹھا سکے تھے۔ تاہم اس مرتبہ کھیلوں کا میلہ پوری شان سے سجا ہے اور نہ صرف کھلاڑی بلکہ منتظمین اور عوام بھی اس ایونٹ کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں۔

(تصویر: انیلا خالد)


پشاور میں منعقد ہونے والے یہ گیمز 16 نومبر تک جاری رہیں گے۔

ایونٹ میں بیڈمنٹن، ایتھلیٹکس، آرچری، بیس بال، باسکٹ بال، باڈی بلڈنگ، باکسنگ، سائیکلنگ، فٹ بال، گالف، جمناسٹک، ہینڈ بال، ہاکی، جوڈو، کبڈی، کراٹے، چپو مقابلہ، رگبی، روونگ، نشانہ بازی، سوفٹ بال، سکواش، تیراکی، ٹیبل ٹینس، تائی کوانڈو، ٹینس، رسہ کشی، والی بال، ویٹ لفٹنگ، کشتی، ووشو اور دیگر کھیل شامل ہیں۔

پاکستان میں پہلے نیشنل گیمز 1948 میں کراچی میں منعقد ہوئے تھے جن کا افتتاح بانی پاکستان محمد علی جناح نے کیا تھا۔ خیبر پختونخوا میں پہلے نیشنل گیمز 1958 میں ہوئے تھے جبکہ مجموعی طور پر اب تک صوبے میں چھ مرتبہ نیشنل گیمز منعقد ہوچکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل