1789 کے فرانسیسی انقلاب نے یورپ کی تاریخ کو بدل ڈالا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں جو نظریات و افکار پیدا ہوئے انہوں نے یورپ کے سماج کی نئی تشکیل کی۔ نیشنل ازم، سیکولرازم، سوشلزم اور فیمینزم انقلاب کی پیداوار تھے جنہوں نے فکر کی نئی راہیں کھولیں۔
خاص طور سے انقلاب کے دوران عورت نے اپنے حقوق کی آواز بلند کی۔ پدرسری اور قدامت پرستی کو چیلنج کیا اور انقلاب میں بھرپور حصہ لیا۔ ان عورتوں کا تعلق امرا کے طبقے سے نہیں تھا بلکہ یہ متوسط اور نچلے طبقے کی عورتیں تھیں جنہیں تعلیم سے محروم کر کے گھریلو کاموں میں جکڑ دیا تھا۔ اس انقلاب نے انہیں موقع دیا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور پیرس کے مجمع میں شریک ہوکر انقلاب میں حصہ لیں۔ لہٰذا جب 14 جولائی کو پیرس کے عوام نے بیستیل کے قلعے پر دھاوا بولا تو عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں۔
پیرس کی عورتوں نے اس وقت شدید مظاہرہ کیا جب مارکیٹ سے روٹی کم یاب ہو گئی۔ تو 5 اکتوبر 1789 میں پیرس کی عورتیں اپنے باورچی خانے کے برتن لے کر بازار میں جمع ہوئیں اور غذائی قلت کے خلاف نعرے بلند کیے۔ پھر فیصلہ یہ ہوا کہ بادشاہ کے محل جا کر اپنے مطالبات پیش کیے جائیں۔ چنانچہ عورتوں کا یہ جلوس پیرس کے مضافات میں واقع ورسائی کی جانب روانہ ہوا جہاں شاہی خاندان رہائش پذیر تھا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے محل کے سامنے مظاہرہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ نے گھر کی گیلری سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ روٹی کی قلت نہیں رہے گی۔ اس پر مجمع نے شاہی خاندان پر زور دیا کہ وہ ان کے ساتھ پیرس چلیں۔ شاہی خاندان ایک گاڑی میں سوار ہوا جسے عورتیں گھیرے میں لے کر پیرس لے آئیں۔ مقصد یہ تھا کہ بادشاہ عوام کے درمیان رہے۔
اس کے بعد سے جیسے انقلاب آگے کی جانب بڑھا اور نیشنل اسمبلی کے انقلابی قوانین منظور ہوئے اس کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی متحرک ہوتی چلی گئیں۔ مارکیٹ میں انقلابی لٹریچر جگہ جگہ دستیاب ہونے لگا۔ چونکہ چرچ اور سنسرشپ کی پابندی اٹھا لی گئی تھی اس لیے لوگ کھل کر لکھ رہے تھے۔ ان میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ انقلابی سرگرمیوں کے باوجود سیاستدانوں، دانشوروں اور عوام کی اکثریت ابھی تک عورتوں کے بارے میں یہی خیال رکھتے تھے کہ ِانہیں گھروں میں رہنا چاہیے۔ روایات کی پابندی کرنی چاہیے۔ ابھی تک عورتوں کو نہ تو ووٹ کا حق حاصل تھا اور نہ ہی اسمبلی کی رکن بن سکتی تھیں۔ مردوں کی انجمنوں میں بھی ان کا دخل نہیں تھا۔
ان تمام پابندیوں کے باوجود انہوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے عورتوں کی انجمنیں قائم کیں اور جہاں موقع ملا مردوں کے جلسوں میں شرکت کی۔ نیشنل اسمبلی کے سیشن کے موقع پر گیلری میں بیٹھ کر اس کی کارروائی دیکھتی تھیں اور مخالف اراکین پر نظر رکھتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عورتوں کی جانب سے اہم قدم اس وقت اٹھایا گیا جب نیشنل اسمبلی نے ’مردوں اور شہریوں کے حقوق‘ نامی ڈیکلریشن پیس کیا۔ اس کے جواب میں خواتین کے حقوق کے سرگرم رہنما اولپ دے گوژ نے ’عورتوں کے حقوق کا اعلامیہ‘ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ عورتوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے، اسمبلی کا رکن بننا چاہیے اور قوم کی راہنمائی میں عورتوں اور مردوں کو ملکی مالی معاملات میں برابر کی شرکت دینی چاہیے۔ بچوں کو مکمل آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ماں یا باپ کسی کا بھی نام استعمال کر سکیں۔ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے اور جمہوری عمل میں ان کی شرکت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ عورتوں کو شہریت کے تمام حقوق ملنے چاہییں۔
تاہم چونکہ گوژ بادشاہت کی حامی تھیں اس لیے انہیں انقلاب دشمن قرار دے کر گلوٹین کے ذریعے ان کا سر تَن سے جدا کر دیا گیا۔
جب نیشنل اسمبلی میں عورتوں کے حقوق کی بحث ہوئی تو اراکین کی اکثریت نے عورتوں کی آزادی کے خلاف تقاریر کیں۔ انقلاب نے بھی پدرسری کے تعصبات کا خاتمہ نہیں کیا۔ عورتوں کو سیاسی حقوق تو نہیں دیے گئے مگر سماجی حقوق ضرور دیے گئے جن کے مطابق: عورتوں کو طلاق کا حق، وراثت میں ان کا حصہ اور شوہروں پر مقدمہ کرنے کا حق ملا اور اس کے علاوہ تعلیم میں برابری کا حق بھی ملا۔
فرانسیسی انقلاب نے اگرچہ بڑی بنیادی تبدیلیاں کیں پرانی اور قدامت پرست روایات کو اکھاڑ پھینکا۔ انقلابی مقاصد کے لیے گلوٹین کے ذریعے لوگوں کا قتل عام بھی ہوا۔ لیکن جب عورتوں کے حقوق اور آزادی کی بات آئی تو نیشنل اسمبلی کے اراکین نے روایتی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق کی سخت مخالفت کی۔ جس پر عورتوں نے احتجاج کرتے ہوئے اس کا اظہار بھی کیا کہ انہوں نے انقلاب کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا تھا مگر ان کی قربانیوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ انہوں نے اس وقت بھی فرانس کا دفاع کیا تھا جب کہ دشمن اس پر حملہ آور ہوئے تھے۔
1799 میں جب نپولین برسراقتدار آیا تو اس نے جہاں بہت سی انقلابی اصلاحات کا خاتمہ کیا تھا وہیں اس نے انقلاب کے دوران دیے جانے والے عورتوں کے حقوق کو بھی ختم کر دیا۔ وہ اس کا قائل تھا کہ عورتوں کو مرد کی نگرانی میں رہنا چاہیے اور معمولی تعلیم حاصل کرنی چاہیے کیونکہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے اور اس کی وفاداری اس کے شوہر کے ساتھ وابستہ ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر انقلاب بھی پدرسری کی روایات کے ساتھ آئے تو اس کا رویہ عورتوں کی جانب سے قدامت پسندانہ ہوتا ہے۔ جب تک انقلاب کے دوران ان کی ضرورت ہوتی ہے ان سے قربانی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے لیکن جب انقلاب جڑیں پکڑ لیتا ہے تو عورتوں کو واپس ان کے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے بڑی جدوجہد کی مگر ان کی یہ جنگ بھی ختم نہیں ہوئی ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے برابر سیاسی اور سماجی تحریکوں میں حصہ لے رہی ہیں۔