کشمیر میں کاروباری نقصان ایک ارب ڈالر سے زائد

کشمیر چیمبر آف کامرس کے تخمینے کے مطابق ستمبر تک سو ارب روپے یعنی ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور وہ عدالت سے اپیل کریں گے کہ کسی آزاد ادارے کی مدد سے نقصان کا صحیح اندازہ لگایا جائے ۔

کشمیر میں جاری کرفیو نما صورت حال میں ایک بند مارکیٹ (اے ایف پی فائل)

اگست میں بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد ہونے والا کاروباری نقصان ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کشمیر کی مرکزی تجارتی تنظیم کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ وہ اس نقصان پر بھارتی حکومت کے خلاف مقدمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بھارت کی جانب سے نیم خود مختار علاقے جموں و کشمیر کو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کرنے کے بعد خطے پر اپنا کنٹرول سخت کرنے کے عمل نے علاقے کو خوف و ہراس کی ایک نئی لہر کا شکار کر دیا ہے۔

بھارتی حکومت کے مطابق اس قدم سے کشمیر میں ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کا کہنا ہے کہ یہ ترقی صرف ایک دھوکہ ہے۔ شٹ ڈاؤن کے بعد لوگوں نے اپنی دکانیں اور مارکیٹس احتجاجی طور پر بند کر دی ہیں۔ جبکہ کچھ کے مطابق ایسا عسکریت پسندوں کے حملے کے خدشے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

کشمیر چیمبر آف کامرس کے  تخمینے کے مطابق ستمبر تک سو ارب روپے یعنی ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جو اب پہلے سے بڑھ چکا ہے۔

چیمبر آف کامرس کے سینئیر نائب صدر ناصر خان نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم عدالت سے اپیل کریں گے کہ وہ کسی آزاد ادارے کے ذریعے ہمارے نقصان کا اندازہ لگائے کیونکہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کے باعث ان کی تنظیم مقامی کاروباری شخصیات سے رابطہ کر کے نقصان کا درست اندازہ لگا پانے کے قابل نہیں ہے اور انہیں یہ تفصیلات حاصل کرنے لیے اپنے عملے کے لوگوں کو بھیجنا پڑتا ہے۔

بھارت کی وزات داخلہ اور مقامی حکومت کے عہدیداروں نے اس حوالے سے بات کرنے کی درخواست کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذرائع ابلاغ کے نظام پر پابندی کے علاوہ حکومت نے خطے میں بھارتی فوج کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جس کی وجہ سیکیورٹی خدشات بتائے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ پابندیوں کو نرم کیا گیا لیکن زیادہ تر علاقے میں ابھی تک انٹرنیٹ پر پابندی برقرار ہے۔

کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں جبکہ بھارت کشمیر میں جاری عسکریت پسندی کی لہر کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے لیکن پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ پاکستان کے مطابق وہ غیر متشدد مظاہرین کی صرف اخلاقی حمایت کرتا ہے۔

بھارتی حکومت کے اقدامات کے بعد کشمیر میں صرف کاروبار ہی نہیں سیاحت اور کھیتی باڑی کے علاوہ باغبانی اور دستکاریوں کے کاروبار کو بھی نقصان ہوا ہے جو کشمیر کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سری نگر میں ایک ہوٹل چلانے والے ویوک وزیر نے بتایا: ’میں کئی ماہ سے یہاں عدم استحکام دیکھ رہا ہوں۔ یہاں بہت غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے۔‘

وزیر کئی سال پہلے اپنا کاروبار بڑھانے کا سوچ رہے تھے لیکن اب ان کا ہوٹل بمشکل ہی اپنے اخراجات پورے کر پا رہا ہے اور وہ اسے بھارتی ریاست ہماچل پردیش منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

بھارتی حکومت نے اکتوبر میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس معطل کر دی تھی۔ علاقے میں غیر مقامی مزدوروں پر حملوں کے بعد سیاحوں کی آمد بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پولیس نے ان حملوں کی ذمہ داری پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں پر عائد کی ہے۔

چیمبر آف کامرس کے سینئیر نائب صدر ناصر خان کا کہنا تھا کہ انہیں حیرت ہو گی اگر کوئی سرمایہ کار یہاں آئے گا کیونکہ ان کے مطابق اگست سے اب تک کسی متوقع سرمایہ کار نے کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے رابطہ نہیں کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا