ڈنمارک کی اقوام متحدہ میں نائب سفیر نے کہا ہے کہ تحریک طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغان طالبان کی طرف سے ’بڑی‘ حمایت حاصل ہے، جس میں لاجسٹک مدد بھی شامل ہے۔
افغانستان انٹرنیشل ڈاٹ کام کے مطابق بدھ کو سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ساندرا جینسن لندی نے کہا کہ تقریباً 6000 عسکریت پسندوں کے ساتھ ٹی ٹی پی خطے کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے اور اس کے کچھ سب سے جان لیوا حملوں افغان علاقے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
ڈنمارک کی مندوب کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے سرحدی علاقوں، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز اور حکومتی اہلکاروں کو ہدف بنانے والے حملوں میں حال ہی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسلام آباد، افغان طالبان پر الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو افغانستان سے کارروائی کرنے کی اجازت دی۔ افغان طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی کونسل اجلاس میں پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل نائب نمائندے عثمان جدون نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف دو دہائیوں کی جنگ میں پاکستان میں 80000 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی جب کہ اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ داعش خراسان، ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروپ افغانستان میں سرگرم ہیں۔ انہیں طالبان کی حمایت حاصل ہے اور انڈیا ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
ڈنمارک کی مندوب نے خبردار کیا کہ انتہا پسند گروپس جیسے کہ داعش اور القاعدہ نے اپنی آن لائن پروپیگنڈا اور بھرتی مہموں میں توسیع کی ہے۔ ان کا کہنا تھا ان کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔
پاکستان میں سکیورٹی واقعات اور دہشت گرد حملوں میں افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان نے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں اور کمانڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے کیے۔
گذشتہ ماہ سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جو ایک ہفتے سے زیادہ جاری رہیں۔ بعد ازاں دونوں فریق مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔