کرم میں 23 عسکریت پسند مارے گئے، ’دہشت گردی‘ کا مکمل خاتمہ کر رہے ہیں: صدر زرداری

صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین سے ’بیرونی پشت پناہی میں سرگرم دہشت گردی‘ کا مکمل خاتمہ قومی اتفاق رائے سے کیا جا رہا ہے۔

فرنٹیئر کنسٹیبلری اور فوج کے اہلکار 17 جنوری 2025 کو کرم میں اس علاقے کے قریب موجود ہیں جہاں گھات لگا کر حملہ کیا گیا (اے ایف پی)

پاکستانی فوج نے جمعرات کو کہا ہے کہ ملک کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے خلاف دو کارروائیوں میں 23 جنگجو مارے گئے ہیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے مطابق یہ کارروائیاں 19 نومبر کو ضلع کرم کے دو الگ الگ مقامات پر کی گئیں۔

پاکستان نے اس سال کے اوائل میں عزم استحکام کے نام سے انسداد دہشت گردی کی ایک تجدیدی مہم کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا تیز کرنا تھا۔

ملک کے مختلف علاقوں میں نہ صرف عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کے خلاف فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کرم میں کارروائیوں پر سکیورٹی فورسز کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کی عفریت کے ملک سے مکمل خاتمے تک اس کے خلاف جنگ کاری رکھیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھ سمیت پوری قوم وطن عزیز کی حفاظت کے غیر متزلزل عزم میں افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔‘

صدر آصف علی زرداری نے ایک بیان میں کہا کہ خیبر پختونخوا میں ’انڈین پشت پناہی میں سرگرم فتنہ الخوارج‘ کے خلاف جاری کامیاب آپریشنز کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی سرزمین سے بیرونی پشت پناہی میں سرگرم دہشت گردی کا مکمل خاتمہ قومی اتفاقِ رائے سے کیا جا رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کا موقف ہے کہ ان حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث ہے جو کہ افغانستان کی سرزمین کو ان حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتی ہے، تاہم افغانستان کی حکومت اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

پاکستان میں حالیہ حملوں پر اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ رواں ماہ ہی اسلام آباد کی کچہری کے باہر خودکش حملے میں کم از کم 12 افراد جان سے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے، اس حملے کی تحقیقات کے بعد پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ اس کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں کی گئی تھے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے منگل کو اسلام آباد میں قائم مقام امریکی سفیر نٹالی بیکر سے ملاقات میں افغانستان کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان ’دہشت گردی کے سائے میں مذاکرات آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘

ٹی ٹی پی افغان طالبان سے علیحدہ ہونے کے باوجود نظریاتی طور پر ان کے قریب سمجھی جاتی ہے اور گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں متعدد بڑے حملوں میں ملوث رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان