روسی عورت کی خونیں جدوجہد

انقلابی تحریکوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی کامیابی کے لیے عورتوں کی مدد حاصل کرتی ہیں مگر کامیابی کے بعد انہیں واپس اپنے گھروں میں بھیج دیتی ہیں۔

روسی عورت نے اپنے حقوق منوانے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ 1909 کی ایک تصویر (پبلک ڈومین)

فرانسیسی انقلاب 1789 کی طرح روسی انقلاب کی تحریک میں بھی متوسط اور نچلے طبقات کی خواتین نے اس امید پر بھرپور حصہ لیا کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ روایتی پابندیوں سے آزاد ہو کر روسی معاشرے میں مساوی مقام حاصل کر سکیں گی۔

اشرافیہ کی عورتیں زار پیٹر کے زمانے میں فرسودہ روایات سے نکل کر آزاد ہوئی تھیں کیونکہ پیٹر روس کو جدید یورپی ریاست بنانا چاہتا تھا اس لیے اُس نے امرا اور اُن کی عورتوں کو یورپ کے کلچر میں ڈھالا۔ اُس کے حکم کے مطابق امرا اپنی بیگمات کو رقص، موسیقی اور دوسری ثقافتی سرگرمیوں میں ساتھ لے کر آتے تھے۔ یہ خواتین فرانسیسی بولتی تھیں اور روسی زبان کو حقارت سے دیکھتی تھیں لہٰذا زار پیٹر نے صرف امرا کے طبقے کو یورپی بنایا اور باقی آبادی کو پسماندہ چھوڑ دیا۔

روس میں تقریباً 80 فیصد آبادی کسان عورتوں کی تھی جو اَن پڑھ تھیں اور اپنا سارا وقت محنت، مزدوری اور گھریلو کاموں میں صَرف کرتی تھیں۔ ان میں کوئی سیاسی شعور نہ تھا اور زار روس کو یہ اپنا سرپرست اور باپ سمجھتی تھیں۔ لیکن تاریخ ایک جگہ ٹھہری ہوئی نہیں رہتی ہے، لہٰذا اس تبدیلی کو بھی ہم روسی معاشرے میں بھی دیکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

19 ویں صدی میں جب روس میں صنعتی عمل شروع ہوا تو مرد مزدوروں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں کسان عورتیں بھی فیکٹری کی مزدور بن گئیں۔ اکٹھے کام کرنے کی صورت میں انہیں اپنے بنیادی حقوق کا احساس ہوا اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں نے اُن میں اتحاد پیدا کیا۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب روس میں ایسی سیاسی جماعتیں جو ملک کو پسماندگی سے نکالنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے عوام میں سیاسی شعور پید اکرنے کی غرض سے پمفلٹ اور کتابچے چھاپے جوفیکٹری کے مزدوروں میں تقسیم کیے گئے۔ ان میں سے کچھ سیاسی جماعتیں دیہات میں بھی گئیں تاکہ کسانوں کو بھی منظم کریں۔

یہ سیاسی جماعتیں زار کی حکومت کے لیے خطرہ تھیں اس لیے ان پر خفیہ اداروں کی نگرانی ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں گرفتاریاں بھی ہوتی تھیں جن میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ قیدیوں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں جن میں سزائے موت سے لے کر سائبیریا کی جلاوطنی شامل تھی۔ آگے چل کر ان سیاسی تنظیموں نے عدم تشدد کی پالیسی کو ترک کر دیا اور اس کی جگہ دہشت گردی کو اپنایا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ دہشت گردی کے خوف سے زار اور اُس کی انتظامیہ اپنی اصلاح کرے گی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم واقعہ زار الیگزینڈر دوم کا قتل تھا۔ لیکن اس دہشت گردی کے باوجود روس کا شاہی خاندان برسراقتدار رہا اور تبدیلی کی بجائے اُس نے سخت قوانین کا نفاذ کیا۔

روس کی تاریخ میں 1905 کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ وہ سال ہے کہ جب جاپان کی بحریہ نے روسی بحریہ کو شکست دے کر اُس کی کمزوریوں کو واضح کر دیا تھا۔ 1905 ہی میں پیٹرزبرگ کے عوام نے بروز اتوار ایک بڑا مظاہرہ منظم کیا جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس مظاہرے کا مقصد عام لوگوں کی مشکلات کی طرف زار کی توجہ دلانا زار کے اختیارات میں عوامی نمائندوں کو شامل کرنے کی کوشش تھا۔ اُس وقت زار نکولس دوم اپنی رہائش پر موجود نہیں تھے۔ پولیس نے ہجوم کو زار کی رہائش تک جانے سے روکا اور پھر اس پر گولیاں چلائیں جس میں کئی سو لوگ مارے گئے جن میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ روسی تاریخ میں یہ واقعہ ’خونی اتوار‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس واقعے نے روس کی انقلابی تحریکوں کو مزید سرگرم کر دیا۔ جہاں ریاستی اصلاحات کے ساتھ ساتھ یہ موضوع بھی زیر بحث آیا کہ عورتوں کو ووٹ کے حق کے ساتھ معاشرے میں مساوی مقام دینا چاہیے۔ لیکن صورت حال اُس وقت تیزی کے ساتھ بدلی جب 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور اس میں روس نے اتحادیوں کی جانب سے شرکت کی۔

اس جنگ کے نتیجے میں روسی معاشرے میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ جب مردوں کی ایک بڑی تعداد فوج میں شامل ہو کر محاذوں پر گئی تو اُن کی جگہ عورتوں نے لینا شروع کی۔ کسان عورتوں نے کھیتی باڑی شروع کی اور اناج کے کاروبار کو سنبھالا۔ ان میں سے کچھ عورتوں نے ’ڈیتھ بٹالین‘ کے نام سے عورتوں کو منظم کیا اور محاذوں پر جا کر جنگ میں شرکت کی۔ اس جنگ میں کل ملا کر 80 ہزار کے لگ بھگ عورتوں نے حصہ لیا۔ ان میں ٹیلیفون آپریٹر، کلرک، نرسیں اور ڈاکٹر عورتیں بھی شامل تھیں جنہوں نے جنگی محاذوں پر فوجی خدمات ادا کیں۔

جنگ کی وجہ سے ملک میں غذائی قلت ہوئی اور مہنگائی بڑھی جس کی وجہ سے عورتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ گھریلو ذمہ داریاں اُنہیں ہی کو نبھانا پڑتی تھیں۔ روسی افواج پے در پے شکستوں سے دوچار رہی کیونکہ ان کے پاس اسلحے کی سخت کمی تھی۔ ان حالات میں روس میں سیاسی جماعتیں متحرک ہوئیں جن میں عورتیں بھی شامل تھیں جنہوں نے اپنے حقوق کے پروپیگنڈے کے لیے ایک رسالہ ’مزدور عورتیں‘ نکالا۔

مارچ 1917 میں پیٹرزبرگ میں، جس کا نام تبدیل کر کے پیٹروگراڈ رکھ دیا گیا تھا، عورتوں اور مردوں نے مل کر ایک بڑا مظاہرہ کیا چونکہ اس میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی اس لیے اسے مارچ 1917 کا عورتوں کا انقلاب کہا جاتا ہے۔ نکولس دوم کے احکامات کے تحت مظاہرے کو سختی سے کچلنے کا حکم دیا گیا۔ فوج نے پہلے دن تو گولیاں چلائیں جس میں لوگ مارے گئے مگر رات کو جب یہ فوجی اکٹھے ہوئے تو اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عوام کا ساتھ دیں گے لہٰذا دوسرے دن فوجی مظاہرین میں شامل ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد نکولس دوم نے تخت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اس طرح ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

عبوری حکومت کے قیام کے دوران عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پر عورتوں نے بھرپور مظاہرہ کیا اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے ریاست کو اپنے مطالبات پیش کیے اور اپنے کچھ مطالبات منوانے میں کامیاب رہیں جن میں ووٹ کا حق، وکالت کرنے کا حق، انتظامیہ میں برابر کے حقوق اور جن عورتوں نے سیاسی حقوق کی بات کی اُن میں زیادہ تر کا تعلق اشرافیہ اور متوسط طبقے سے تھا اور نچلے طبقے کی عورتوں کا مقصد امن اور روٹی کا حصول تھا۔

اکتوبر 1917 میں بالشویک پارٹی اقتدار میں آ گئی لیکن فوراً ہی اُسے خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ اور برطانیہ نے بالشویک اقتدار کے خلاف وائٹ رشین فوج تیار کرائی تھی۔ جسے اُنہوں نے فوجی اور مالی امداد بھی دی تھی۔ اس خانہ جنگی نے ایک بار پھر روس کو بحران میں مبتلا کر دیا۔ اس موقعے پر بھی عورتوں نے بالشویک کا ساتھ دیا اور وائٹ رشین فوجوں سے جنگ کی۔ کچھ عورتوں نے اپنی یادداشتوں میں وائٹ رشین افواج کی سفاکانہ کارروائیوں کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ لیکن آخر میں ریڈ آرمی فتح یاب ہوئی اور بالشویک پارٹی کا اقتدار مستحکم ہو گیا۔

بالشویک حکومت کے پہلے سال میں عورتوں کے حقوق پر توجہ دی گئی اور حکومتی انتظامیہ کی جانب سے عورتوں کے حقوق کے بارے دستاویزات تیار کی گئیں۔

1919 میں عورتوں کا بیورو قائم کیا گیا جس کا مقصد ایک پروپیگنڈا کے ذریعے عورتوں میں انقلاب کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ 1930 میں سٹالن کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ تمام حقوق جو عورتوں کو دیے گئے تھے وہ واپس لے لیے گئے جن میں اسقاط حمل کی آزادی، طلاق کا حق اور شادی کے بغیر ہونے والے بچوں کے حقوق شال تھے۔ سٹالن کی حکومت نے 1930 میں ہی عورتوں کے ایک بیورو کو اس دلیل پر بند کیا کہ سوویت یونین میں عورتوں کو آزادی ملی تھی اس لیے اب اس ادارے کی کوئی ضرورت نہیں۔

1930 میں ہی عورتیں دوبارہ سے پابندیوں کی زد میں آ گئیں۔ ایک جانب اُنہیں ملازمت اور اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف ہونا پڑتا تھا تو دوسری جانب بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کرنا پڑتی تھیں۔ انقلابی تحریکوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنی کامیابی کے لیے عورتوں کی مدد حاصل کرتی ہیں مگر کامیابی کے بعد انہیں واپس اپنے گھروں میں بھیج دیتی ہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ