طالبان جدید میڈیا کا استعمال کیسے کرتے ہیں؟

افغانستان میں کیسے طالبان تحریک جدید میڈیا کے چیلنجوں سے نمٹ رہے ہیں۔

کابل میں ایک صحافی اپنے موبائل پر طالبان کا پیغام پڑھ رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے وسیع میڈیا پروپیگنڈہ مشین کو بھی اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ وہ کس طرح  جعلی خبروں کا مقابلہ کریں اور بڑھتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال اور میڈیا میں جدیدیت کو قبول کریں۔

ٹی وی اور ریڈیو پر 1996 سے لے کر 2001 تک اپنے دور حکومت میں یہی شدت پسند تنظیم میڈیا پر پابندی کے لیے مشہور تھی لیکن اب انہوں نے میڈیا کی بدلتی ہوئی شکل کو حیران کن طور پر قبول کرنے اور اس کا جدید شکل میں مقابلہ کرنے کے لیے تیاری بھی کرلی ہے۔

صحافیوں کے ساتھ مختلف موبائل ایپس پر رابطہ کرنے سمیت طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر عسکریت پسندوں کی  کارروائیوں کی تازہ ترین خبریں بھی ٹویٹ کرتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو وٹس اپ کے ذریعے بتایا کہ ’میڈیا ان کی کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے۔‘

طالبان میڈیا ونگ سے وابستہ ایک سینیر ذرائع  نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے اور اس کا استعمال اسلامی شریعت کے خلاف بھی نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ یہ وہ اپنی بیانیہ کی تشہیر کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض اوقات طالبان کے اہم لوگوں کی انٹرویوز ان کے میڈیا شاخ کے علم بھی نہیں ہوتا جس کی بعد میں تردید بھی کی جاتی ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار تو یہ کنفیوزن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جس نے انٹرویو لیا ہے وہ واقعی وہی بندہ ہے جو دعوی کر رہا ہے کیونکہ شناخت معلوم کرنے میں بھی دشواری پیدا ہوجاتی ہے۔

میڈیا کو طالبان کے نام پر جاری ہونے والی غیر تصدیق شدہ معلومات بھی بہت عام ہے جو زیادہ تر سوشل میڈیا پر جاری اکاونٹ سے شئیر کی جاتی ہے کیونکہ کئی مرتبہ  طالبان کی اپنے اکاونٹ بند کر دیے جاتے ہیں اور پھر دوسرے ناموں سے اکاونٹ بنانا ضروری ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی ایک عرفی نام ہے جن کی نام پر طالبان کی میڈیا شاخ سے مختلف خبریں ذرائع ابلاغ کو جاری کی جاتی ہیں۔

طالبان کی کارروائیاں ایسی بھی نہیں ہیں کہ ان کا کسی کو پتہ نہ چلے کیونکہ نیٹو اپنے افسران کو طالبان کی کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہیں۔

نیٹو ریزلوٹ مشن کابل کے ترجمان کرنل کنوٹ پیٹرز کہتے ہے کہ اس طرح کی بریفنگ انہیں یہ فائدہ دیتی ہے کہ یہ گروپ کس دن کون سی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ طالبان اپنے جانی نقصان کم اور دوسروں کے زیادہ بتاتے ہیں۔ اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں طالبان اپنی کارروائیوں کی تفصیل قدرے درست بتاتے ہیں۔

یہ خیال کہ طالبان زیادہ تر تصدیق شدہ معلومات جاری کرتے ہیں کہ بارے میں بین الاقوامی کرائسز گروپ کے کنسلٹنٹ گرائمی سمت کہتے ہے کہ طالبان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ مبالغے کے مقابلے میں سچائی بیان کرنے کا  اثر زیادہ ہوتا ہے۔

طالبان کی میڈیا کے ساتھ رابطوں کے بارے میں صحافی کہتے ہیں کہ حکومتی افسران کے مقابلے میں طالبان صحافی کو جواب دینے میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

افغان میڈیا سپورٹ گروپ کے ڈائریکٹر مجیب خلوتگر اسی ذمہ داری کے بارے میں کہتے ہیں کہ چند ہفتے پہلے جب افغانستان کے صوبہ فرح میں ایک ریڈیو کے صحافی کو قتل کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے طالبان سے اس بارے میں تصدیق کرنا چاہی تو طالبان نے چند منٹوں میں ان کے پیغام کا جواب دے دیا جبکہ اس کے مقابلے میں افغانستان کے صدر کے دفتر کو لکھا گیا پیغام کا ابھی تک جواب نہیں آیا ہے۔

تاہم بعض اوقات طالبان کی جانب سے جاری کی گئی خبروں اور معلومات کی تصدیق مشکل ہوجاتی ہے۔ اس بارے میں پاکستانی صحافی طاہر خان نے اپنے موبائل میں طالبان کی طرف سے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز اے ایف پی کو دکھائیں جوکہ جعلی تھیں۔

طاہر خان نے بتایا کہ ’اس قسم کی مہم میں سچائی شاید اتنی اہم نہ ہوں جتنی نفسیاتی پروپیگنڈے کو اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔‘

طالبان ذرائع کہتے ہیں کہ طالبان کی قیادت اپنے سینئر لوگوں کو یہ ذمہ داری دیتی ہے کہ وہ میڈیا کے ساتھ بات کریں اور ان کو خبریں جاری کریں۔

طالبان میڈیا پانچ زبانوں میں خبریں جاری کرتا ہے جس میں پشتو، اردو، عربی، انگریزی اور دری شامل ہیں۔ اس مقصد کے کے لیے درجنوں رضا کار کام کرتے ہے۔

پرنٹ میگزین مواد دیہی لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں جبکہ پروپینگنڈہ ویڈیوز اور گانوں کی تعلیم یافتہ لوگوں میں تشہیر کی جاتی ہے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ رضاکاروں کی یہ طالبان آرمی ابلاغ عامہ کے طالب علموں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین پر مشتمل ہے جو میڈیا رجحانات پر نظر رکھتے ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ ’یہ رضا کار خدا کے نوکر ہیں۔‘

طالبان نے اپنے دور حکومت میں میڈیا کو  کنٹرول کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے تھے۔ اس وقت زیادہ تر غیرملکی صحافیوں نے افغانستان چھوڑا تھا جبکہ مقامی صحافی چھپ کر کام کرتے تھے تاکہ ان طالبان کی جانب سے کہیں جاسوسی کا الزام نہ لگ جائے۔

تاہم امریکہ کا افغانستان پر چڑھائی کے 17 سال بعد افغانستان کا میڈیا بہت پھیل گیا ہے۔ اس پھیلتے ہوئے میڈیا کی وجہ سے افغانستان کے صحافی نشانہ بھی بنائے گئے۔

طالبان نے افغانستان کے طلوع چینل پر حملے کے نتیجے میں سات افراد ہلاک کیے تھے اور یہ 2001 سے اب تک افغانستان کے میڈیا پر پہلا بڑا حملہ تھا۔

اس کے علاوہ صحافیوں کو اغوا، قتل اور مخلتف حملوں کا بھی سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ 2018 میں افغانستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

افغان میڈیا سنٹر کے خلورتگر نے بتایا کہ طالبان میڈیا کو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طالبان اظہار رائے کے حق پر یقین رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان میڈیا کو بطور پروپیگنڈا استعمال کرتے ہیں نہ کہ وہ میڈیا کے استعمال اور اظہار رائے کو لوگوں کا حق سمجھتے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان غیرمعمولی امن مذاکرات کے بعد اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امریکی انخلاء کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں آجائیں۔

طالبان ذرائع نے بتایا کہ طالبان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ میڈیا اداروں کو بند کر دیں لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ ان کے کے لیے اسلامی شریعت کے اصولوں کے اندر کے ضابطہ اخلاق ضرور بنائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ میڈیا پر خاتون کو سکرین پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی  کیونکہ خواتین کی جگہ گھر میں ہے اور یا انہیں کسی عزت دار پیشے میں جانا چاہیے۔

تاہم ذارئع نے بتایا کہ  پہلے کے برعکس اب بین الاقوامی میڈیا کو خوش آمدید کہا جائے گا۔


’ہم نے اسامہ بن لادن کو مہمان نوزی کی خاطر حفاظت بھی دی تھی اور عزت بھی۔ جو بھی کسی دوسرے ملک سے آئے گا اس کا بطور مہمان استقبال کیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین