فیض میلہ، مہنگی جیکٹ اور سستی سوچ

’یہ مت دیکھو کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ کہنے والا کیا پہنا ہوا ہے۔ لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو بات منہ پر مار دو۔ عورت ہوکر لیدر جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو منہ توڑ کے عبرتِ زمانہ کے لیے کلمہ چوک پہ رکھ دو۔‘

کتاب کے بیچ سے بات کرنے کی بجائے ہم نے کہانی لیدر جیکٹ پر ڈال دی ہے۔ لیدر جیکٹ کتنی ہی وزنی کیوں نہ ہوجائے، وہ ہماری بات میں کتنا وزن ڈال پائے گی؟ (ویڈیو سکرین گریب)

مجھے آج تک فیض میلے میں شرکت کا موقع نہیں ملا۔ افسوس ہے! ہر بار اس میلے میں جگمگ ستاروں کو جھلملاتا دیکھتا ہوں تو افسوس بڑھ جاتا ہے۔ بنیاد کمرشل ہو یا نان کمرشل، ہر اُس محفل کو دیکھ کر طبعیت جی اٹھتی ہے جس میں ترقی پسند رجحانات رکھنے والے ہنستے بولتے اور ناچتے گاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا جہاں میں ترقی پسندوں کے اکٹھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ ہمیں یہ خزانے شاید ہی خرابوں میں ملیں۔ اب سال میں ایک آدھ بار ہی سہی، بہشت کی جانب کوئی کھڑکی کھلی دیکھ لیں تو لپک کے اتنی سانس کھینچ لیتے ہیں کہ پورے جنم کو کافی ہوجاتی ہے۔ فیض فرما گئے ؎

حلقہ  کیے  بیٹھے  رہو اک شمع  کو  یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے

فیض میلہ تو پچھلے سال بھی ہوا تھا۔ یہ سارے جھمیلے جو اِس سال ہوئے، پچھلے برس کے میلے میں بھی ہوئے تھے۔ میں پشتو اتنڑ، بلوچی چاپ، سرائیکی جھومر، سندھی ناچڑ اور پنجابی بھنگڑے کی بات نہیں کر رہا۔ اُنہی انقلابی نعروں کی بات کر رہا ہوں جن سے ایشیا لال ہو نہ ہو، مجھ جیسے کاہلوں کے کان ضرور لال ہوگئے۔ پچھلے برس یہی نعرے تھے، ڈھول کی یہی تھاپ تھی، یہی ردھم تھا، ایسی ہی روانی تھی، یہی مقام تھا، اتنی ہی تعداد تھی اور یہی آہنگ و بانکپن تھا۔ مگر ویڈیو وائرل ہوئی، کسی نے خبر لی اور نہ کسی نے حرفِ دشنام ارزاں کیا۔ آج وہی جوان اُسی مقام پر اسی تعداد، اُنہی نعروں، اُسی انداز اور اُسی ترنگ کے ساتھ سرفروشی کی تمنا ظاہر کرتے دکھائی دیے تو سوشل میڈیا کی ہر دیوار یروشلم کی دیوارِ گریہ بن گئی۔ یہ ناوکِ دشنام فقیہِ شہر کی ہوتی تو چلو کوئی بات تھی۔ قیامت تو یہ ہے کہ یہ طرزِ ملامت اپنوں کی اور کچھ اپنے جیسوں  کی ہے۔ یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح۔ آخر کیوں؟

اِس کیوں کے اُتنے ہی جواب ہوسکتے ہیں جتنے کہ منہ ہیں۔ میری رائے میں پچھلے برس کے نعروں کو جانے اس لیے دیا گیا کہ اُس میں مرکزی کردار ایک لڑکا تھا۔ اِس بار کے نعروں پر زمانہ اس لیے حرف گیر ہوا کہ یہاں مرکزی حیثیت ایک لڑکی کو حاصل تھی۔ میری اِس بات کو کسی جامد پیمانے پر پرکھ کر بہ سہولت مسترد کیا جاسکتا ہے۔ ضرور کیجیے گا، مگر اتنا کہنے کی اجازت مجھے پھر بھی چاہیے ہوگی کہ پاسبانِ حرم کے شعور سے یہاں کوئی شکایت نہیں ہے۔ عقل پرستوں کے لاشعور سے شکوہ آن پڑا ہے۔ ہم نصابی طور پر تو یہ جان گئے ہیں کہ عورت کا مرکزی مقام کوئی قابلِ گرفت بات نہیں ہوتی۔ نصاب سے مگر باہر جاکر اِس بات کو تسلیم کرنے میں ہمیں ابھی بھی نفسیاتی دشواریوں کا سامنا ہے۔ ہم دراصل اُس بات پر ناراض ہیں جو ہم کہہ نہیں پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے بیچ سے بات کرنے کی بجائے ہم نے کہانی لیدر جیکٹ پر ڈال دی ہے۔ لیدر جیکٹ کتنی ہی وزنی کیوں نہ ہوجائے، وہ ہماری بات میں کتنا وزن ڈال پائے گی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمیں بچپن میں عورت کے حوالے سے جو پڑھایا، سمجھایا گیا اور دکھایا گیا وہ فرسودہ قرار پاکر بھی ہمارے لاشعور سے چمٹا ہوا ہے۔ لاشعور سے چمٹی ہوئی نفرتوں میں ایک نفرت وہ بھی ہے جو ہم خوش حال اور آسودہ حال لوگوں سے کرتے ہیں۔ ہمارے زندگی کے بہت سارے دکھ ہیں۔ کسی بھی شخص کو اچھی گاڑی میں دیکھ لیں تو خیال کرتے ہیں کہ ہمارے دکھوں کا ذمہ دار یہی شخص ہے۔ ہماری کچھ نا آسودگیاں ہیں جو ہمیں ورثے میں ملی ہیں اور خود پر ہم نے طاری کرلی ہیں۔ کسی کو آسودہ شبستان میں سیہ مستیاں کرتا دیکھ لیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئی ہیں۔ ہمارے دوستوں میں کوئی شخص اچانک کسی بیش قیمت گاڑی کا مالک بن جائے، پھر چاہے وہ کتنا ہی خاک نشین ہو، ہمیں لگتا ہے کہ سالا مغرور ہوگیا ہے۔ ایسے میں کچھ نہ بن پڑا تو بزرگوں نے غربت وافلاس کو گلوریفائی کردیا۔ درویشی اور فقیری کی اوڑھنیاں اوڑھ کر اپنی لاپروائی اور غفلت کو ہم نے جواز مہیا کردیا۔ اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کسی ترقی پسند کارکن کے لاپتہ ہونے پر جس طرح اہل خانہ کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ بچہ مذہبی تھا، اب لوگوں کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم جدی پشتی غریب غربا ہیں۔

ہوتے ہوتے اب ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی کی بات پر تب تک اعتبار ہی نہیں آتا جب تک وہ میر کی طرح پراگندہ حال نہ ہو۔ پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس شاعر کوئی شعر کہہ دے تو شعر اپنے معانی کھودیتا ہے۔ جوتوں پر دھول اور ویسٹ کوٹ پر سلوٹیں نہ پڑی ہوں تو لگتا ہے صاحب حقیقت سے بہت دور ہیں۔ نتیجتاً تازہ زمانے کے شاعروں نے خود پر تقریباً  لازم ہی کرلیا ہے کہ چوڑی قمیصیں پہنیں گے، بالوں میں ہر گز کنگھی نہیں کریں گے اور جتنا ممکن ہوسکے نہانے سے گریز کریں گے۔ مقام سگریٹ نوشی کے لیے کتنا ہی ناموزوں ہو، اپنے سنکی ہونے کا یقین دلانے کے لیے ایک بار سگریٹ جلانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ ایش ٹرے کے ہوتے ہوئے بھی ایش چائے کے کپ یا فرش پر جھاڑیں گے۔ کوشش کریں گے کہ جب بات کریں تو منہ سے کیپسن اور گولڈ لیف کے بھپکے ضرور آئیں۔ انہیں لگتا ہے ایسا نہیں ہوگا تو چاہنے والوں تک شعر ٹھیک سے پہنچ نہیں پائے گا۔

عمران خان آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب وتمدن میں پلے بڑھے ہیں۔ زندگی میں جو پہنا جاسکتا تھا، انہوں نے پہنا۔ جو اتارا جاسکتا تھا، انہوں نے اتارا۔ اب جب معاملہ اپنے ہی دیس میں آن پڑا ہے تو علامہ اقبال کی طرح اپنی پشیمانی کا اظہار مغرب کی طرف تھوک کر کرنا پڑ رہا ہے۔ مغرب میں رہ کر بھی مغرب سے متاثر نہ ہونے کا دعویٰ اس معاشرے میں منہ مانگے دام بکتا ہے۔ خواہ یہ دعویٰ آپ عمر کے آخری حصے میں کیوں نہ کر رہے ہوں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے بھی خان صاحب کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک بغیر استری کے کپڑے پہننا ہے۔ آپ اپنے دُکھ درد کسی کارکن کے سامنے رکھ دیں، وہ جھٹ سے خان صاحب کا دامن سامنے رکھ دے گا، یہ دیکھیں میرے قائد کے دامن میں دو موریاں ہیں۔ بھٹو صاحب نے جس طرح سوشل ازم کے ساتھ اسلام لگادیا تھا، اسی طرح اپنی شخصیت کے ساتھ کھلا گریبان اور لٹکے ہوئے آستین جوڑنے پڑے۔ آج بلاول بھٹو پر بھی ایک بڑی تہمت یہ ہے کہ باہر کے پڑے ہیں اور آسودہ خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ اسی واسطے پینٹ کوٹ مستقل بنیادوں پر انہیں ترک کرنا پڑا ہے۔ تقریر کے دوران آستین لٹکالیتے ہیں تاکہ سند رہے کہ اُن کی تعمیر میں بھی ایک صورت خرابی کی مضمر ہے۔ پی پی پی اپنی کوئی نسبت رہی ہو یا نہ رہی ہو، مگر بے نظیر بھٹو پر ہم جان و تن فدا رہے۔ اُن کی شخصیت کی خوبصورتی ہی یہ رہی کہ ہزار دکھ جھیل کر بھی کبھی منیر نیازی کی طرح اکتائے ہوئے رہنے کی عادت نہیں ڈالی۔ وقت بے وقت جذباتی حملے نہیں کیے۔ اپنے ہونٹ اور آنکھوں میں کبھی سوگ کے رنگ نہیں بھرے۔ سادگی کا مہنگا ترین فیشن بھی اختیار نہیں کیا۔ کاجل سُرخی لگانے پر کبھی عذر میں مبتلا نہیں ہوئیں۔ یعنی ؎

آمد پہ تیری عطر وچراغ وسبو نہ ہوں

اتنا  بھی  بود وباش کو سادہ  نہیں  کیا

کسی اچھے بھلے معقول سیاسی کارکن سے پوچھ لیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل کیا ہے۔ کچھ دیر دماغ پر زور دینے کے بعد کہے گا، دو تین سو حرام خوروں کو چوک میں لٹکادو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اِن دو تین سو حرام خوروں میں اُس کے اپنے قبیلے کے علاوہ ہر فرد شامل ہوتا ہے۔ ہمارے کالم نگار اور اینکر بہت وثوق کے ساتھ چین میں قتل عام کی کچھ ایسی تاریخ سناتے ہیں جس کا خود چینی مورخین کو بھی علم نہیں ہوسکا ہے۔ کالم نگار اور اینکر جب اس طرح کے واقعات سناکر قتلِ عام کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو اپنے تئیں انہوں نے تصور کیا ہوتا ہے کہ قتلِ عام والے لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے صحافی مقتل میں منشی لگے ہوئے ہوں گے۔ مقتدرہ کے سالار پنڈی میں صحافیوں اور کراچی میں تاجروں سے گفتگو کے دوران کہتے ہیں، پانچ ہزار لوگ مارنے پڑیں گے تو ہی کچھ بدلاؤ آوے گا۔ ان پانچ ہزار میں بندوقچی کے علاوہ سب شامل ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں، چائنا نے پانچ سو لوگ مارے تھے میں کم از کم بھی پچاس لوگوں کو جیل میں ڈالنا چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے وزیر اعظم ایک غلط سی نگاہ بھی کابینہ پر نہیں ڈالتے۔ جھوٹ سے پہلے درود شریف پڑھنے والے وزرا اٹھتے بیٹھتے پانچ سو لٹیرے نامزد کیے پھرتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ محرومی کے احساس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نفسیات ہیں۔ ہم انہی لوگوں کا قتلِ عام چاہتے ہیں جن کی وجہ سے کاروبارِ مملکت چل رہا ہوتا ہے۔ ہم خود کتنے ہی خوش حال ہوجائیں، اپنے آپ میں ہم محکوم ہی ہوتے ہیں۔ حریف ہم سے کروڑوں روپے پیچھے کیوں نہ ہو، استعمار اور سامراج کی سازشوں میں اُس غریب کو ہم براہ راست حصہ دار سمجھتے ہیں۔ فیض فیسٹول کے جوانوں پر لیدر کی جیکٹ کا طعنہ کسنے والے بھی سیاسی کارکن ہی ہیں۔ یہ طعنہ انہوں نے ایپل لیپ ٹاپ کی مدد سے مارا ہوتا ہے، مگر میری طرح چونکہ عمر بھر انہوں نے خود کو غریب ہی کہا اور لکھا ہوتا ہے تو ایک دن اپنے غریب ہونے کا انہیں یقین بھی ہوچکا ہوتا ہے۔ بیسیوں بار اپنے اردو میڈیم صحافی اور شاعر دوستوں کو دیکھا کہ وہ انگلش میڈیم صحافیوں اور شاعروں پر ایئر کنڈیشنڈ ڈرائنگ رومز کا طعن کس رہے ہوتے ہیں۔ اسی لمحے دیکھتا ہوں تو ان کی چوڑی دیوار پر ڈیڑھ ٹن کا اے سی سولہ پہ چل رہا ہوتا ہے۔ خود فریبی کے اس گھن چکر سے ہم تب ہی نکل پاتے ہیں جب کوئی سرفروش زور سے ڈھول پیٹتا ہے یا کوئی لیدر پوش زور سے چلاتی ہے۔ کچھ نہیں ہوتا، بس گھبراہٹ میں ہم اپنا داخلی تضاد اُگل دیتے ہیں۔

محرومی کی اسی نفسیات سے ایک اور کمبختی نے جنم لیا ہے۔ مذہب کی طرح غربت بھی اب خیر سے کوالیفیکیشن بن گئی ہے۔ اون کے سویٹر میں پیدا ہونے والے بچے بھی سگرٹ کے دھویں کا چھلہ بناکر بہت کرب کے ساتھ کہتے ہیں، میں سیلف میڈ ہوں۔ اگر کوئی ہے بھی، تو کیا پرچے میں اس کے پانچ اضافی نمبر دے دیے جائیں؟ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اب نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے امیدوار زیرلب یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم سیلف میڈ ہیں۔ ہمارے شعورِ عام میں اس کا واضح مطلب اب یہ بن چکا ہے کہ جس طرح کسی احمدی ماں کے ہاں جنم لینا شہری کا قصور ہے اسی طرح امیر باپ کے ہاں جنم لینا ایک قابلِ دست اندازیِ زمانہ جرم ہے۔ یعنی یہ مت دیکھو کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ کہنے والا کیا پہنا ہوا ہے۔ لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو بات منہ پر مار دو۔ عورت ہوکر لیدر جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو منہ توڑ کے عبرتِ زمانہ کے لیے کلمہ چوک پہ رکھ دو۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ