غداری کیس: فیصلہ روکنے کےلیے مشرف کی درخواست پر سماعت آج

وزارت داخلہ نے بھی سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے ممکنہ فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے آئین معطل کر کے 12اکتوبر 1999کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد  انہیں گرفتار کر کے اقتدارخود سنبھال لیا تھا۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

اسلام آباد کی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنائے جانے کے خلاف پرویز مشرف کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت آج دوبارہ ہوگی، جس میں درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔

دوسری جانب وزارت داخلہ نے بھی سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے ممکنہ فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی تھی، جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ’اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں ان کے موکل کا موقف سنا ہی نہیں کیوں کہ وہ شدید علیل ہیں اور بیرون ملک علاج کروا رہے ہیں، اس لیے عدالت میں پیش ہوکر اپنی وضاحت پیش نہیں کرسکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کا فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔

دوران سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی نقوی نے پرویز مشرف کے وکیل کے سامنے دو سوالات اٹھائے۔ پہلا یہ کہ پرویز مشرف اسلام آباد کے رہائشی ہیں تو ان کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوسکتی ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کوئی ایک فیصلہ بتایا جائے کہ درخواست گزار کسی اور علاقے کا رہائشی ہو اور درخواست کسی اور عدالت میں سنی گئی ہو؟

جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے دلائل دیے کہ ’شہباز شریف کا مقدمہ بھی لاہور میں سنا گیا تھا۔‘ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’وہ تو لاہور کے ہی رہائشی ہیں جب کہ پرویز مشرف کی درخواست پر بھی چک شہزاد، اسلام آباد کا پتہ لکھا ہوا ہے تو لاہور ہائی کورٹ اس درخواست کو کیسے سن سکتی ہے؟‘

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’ایان علی کیس میں سپریم کورٹ نے طریقہ کار طے کر دیا ہے تو آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا؟‘

جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے دلائل کے لیے ایک دن کی مزید مہلت مانگی جو منظور کر لی گئی۔

پرویز مشرف کی استدعا:

لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کے دوران سابق صدر پرویز مشرف کے وکیلوں کی استدعا تھی کہ عدالت پرویز مشرف کی بیماری سے متعلق تصدیق کے لیے غیر جانبدار میڈیکل بورڈ تشکیل دے جو ان کا معائنہ کرنے کے بعد رپورٹ تیار کرے کہ وہ علالت کے باعث پاکستان آ سکتے ہیں یا نہیں، جب کہ انہیں صحت مند ہونے پر پاکستان واپس آنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کا حکم بھی دیا جائے۔

درخواست میں یہ استدعا بھی کی گئی تھی کہ پاکستان کے آئین میں ہر شہری کو دیے گئے بنیادی حقوق کو تسلیم کر کے پرویز مشرف کا موقف عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جائے اور اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا 19 نومبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنانے سے روک کر مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا جائے۔

اس درخواست کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ آج کیا جائے گا۔

وزارت داخلہ کی درخواست

وزارت داخلہ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔

اپنی درخواست میں وزارت داخلہ نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن ٹیم کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹیفائی کیا مگر 24 اکتوبر کو بغیر اختیار کے مقدمے کی پیروی کی گئی اور پراسیکیوشن ٹیم نے تحریری دلائل بھی جمع کرائے، جس کا اسے اختیار نہ تھا۔

حکومتی درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ خصوصی عدالت نے نئی پراسیکیوشن ٹیم کو نوٹیفائی کرنے کا موقع دیے بغیر فیصلے کی تاریخ مقرر کردی۔

وزارت داخلہ کی درخواست میں استدعا کی گئی کہ 19 نومبر کو خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے۔

سنگین غداری کیس ہے کیا؟

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو آئین معطل کرکے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں گرفتار کرکے خود اقتدار سنبھال لیا تھا، جب کہ تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگا کر پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ کے بیشتر ججز کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا۔

یہ مقدمہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس کی سماعت کے دوران عدالت نے پرویز مشرف پر فرد جرم بھی عائد کر دی۔ بعدازاں عدالت میں پیشی کے لیے جاتے ہوئے اچانک راستے میں سابق صدر کی طبیعت مبینہ طور پر خراب ہونے کے سبب پہلے انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا اور پھر وہ علاج کے لیے بیرون ملک روانہ ہوگئے۔ عدالت نے انہیں بار بار طلبی کے نوٹس بجھوائے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان