گورنر پنجاب کے آبائی ضلعے میں خواتین کا راج

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پی ٹی آئی کی دو خواتین رکنِ پنجاب اسمبلی ہیں تو دوسری جانب چار اہم عہدوں پر خواتین افسر تعینات ہیں۔

ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ آمنہ منیر  کے مطابق  انہوں نے پنجاب میں حالیہ تقریوں اور تبادلوں کے دوران عہدے کا چارج سنبھالا 

پاکستان میں عموماً خواتین استحصال کا شکار نظر آتی ہیں۔ انہیں نا صرف حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ تشدد کا بھی سامنا رہتا ہے۔ ایسے میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کے آبائی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں خواتین اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دو خواتین حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی ہیں تو دوسری جانب اہم عہدوں پر خواتین افسر تعینات ہیں۔ یہ روایت یقینی طور پر خواتین کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب ہے۔

ایسی مثال ملک کے کسی بھی دوسرے ضلع میں دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ انتظامی، سیاسی اور عوامی حلقوں میں اس موضوع پر بحث بھی جاری ہے۔

کن خاتون کو کیا عہدہ ملا؟

2018 کے عام انتخابات میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے حلقہ پی پی 122سے آشفہ ریاض فتیانہ، جب کہ پی پی 123سے سیدہ سونیا علی رضا شاہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی میں پہنچیں۔

صوبائی اسمبلی میں منتخب خواتین کی تعداد تین فیصد سے بھی کم ہے، یہی وجہ ہے کہ خواتین اور مرد ارکان میں توازن کے لیے آئین کے مطابق سو نشستوں پر سیاسی جماعتوں کوانتخاب میں حاصل ہونے والی نشستوں کے 33 فیصد کے تناسب سے مخصوص سیٹوں پر خواتین کو نمائندگی دی جاتی ہے۔

اسی طرح بیوروکریسی میں بھی اہم انتظامی عہدوں پرعمومی طور پرمرد افسران کو تعینات کرنے کی روایت ہے۔ پنجاب کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر موجودہ دورِ حکومت میں بھی مرد افسران کی اکثریت ہے۔

ایسی صورتحال میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں خواتین افسران کی اہم عہدوں پر تعیناتی بھی اہمیت کی حامل سمجھی جارہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ آمنہ منیر، اسسٹنٹ کمشنر پیر محل مرحبا نعمت، اسسٹنٹ کمشنر کمالیہ نوشین اسرار، اسسٹنٹ کمشنر گوجرہ سمیرا عنبرین کوتعینات کیا گیا ہے۔

خواتین افسران کی نمائندگی کا چیلنج

ڈپٹی کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ آمنہ منیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے پنجاب میں حالیہ تقرریوں اور تبادلوں کے دوران عہدے کا چارج سنبھالا ہے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے ماتحت تینوں تحصیلوں کی اسسٹنٹ کمشنر بھی خواتین ہیں تو انہیں خوشی ہوئی۔

انہوں نے کہا ’خواتین افسران اگر لگن اور محنت سے کام کریں تو وہ مردوں سے کم نہیں، خواتین کو بھی مرکزی عہدوں پر صلاحیتیں آزمانے کے برابر مواقع ملنے چاہییں۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ بطور خواتین افسران انہیں کس قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ’افسر کے عہدے پر تعینات خواتین کو ویسے تو بہت تحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن پھر بھی مردوں کے معاشرے میں فیلڈ ورک کے دوران خواتین افسران کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ احتیاط سے رہنا پڑتا ہے۔‘

ان کے خیال میں خواتین افسران کو اگر اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں تو وہ بہتر انداز میں سرکاری امور نمٹا سکتی ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی کے لحاظ سے بھی خواتین بہتر ثابت ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا ’گھروں میں فیملی کو بھی وقت دینا پڑتا ہے اور دفتری کام بھی کرنا ہوتا ہے تو خواتین دوہری محنت کرتی ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان