طلبہ یونینز ہوتیں تو اسلامک یونیورسٹی کا واقعہ پیش نہ آتا: لیاقت بلوچ

طالب علمی کے زمانے میں سٹوڈنٹس یونینز میں فعال کردار ادا کرنے والے لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ اکثر لوگ طالب علموں کی تنظیموں اور سٹوڈنٹس یونینز کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں بالکل الگ الگ ادارے ہیں۔

لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ اکثر لوگ طالب علموں کی تنظیموں اور سٹوڈنٹس یونینز کو خلط ملط کر دیتے ہیں (اے ایف پی)

تقریباً دو ہفتے قبل پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں طالب علموں کی جانب سے یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا مقصد طلبہ کے مسائل کو منظر عام پر لانے کے علاوہ ریاستی اداروں سے طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ بھی کرنا تھا۔

تیس نومبر کے طلبہ یکجہتی مارچ کو ملک کے طول و عرض میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ تو دوسری طرف کئی حلقوں نے اس مارچ، اس کے شرکا خصوصاً خواتین اور اس میں اٹھائے گئے مطالبات کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

تاہم ملک بھر میں طلبہ کی بڑی تعداد کا سڑکوں پر آنے اور سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا اس سرگرمی میں حصہ لینے کے باعث پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کی امیدیں کافی حد تک بڑھ گئیں تھیں۔

لیکن پھر 12 دسمبر کی رات اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی میں ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ دو طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان معمولی تکرار مسلح تصادم کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں دو طالب علم اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اور یوں سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کی مخالفت کرنے والوں کے ہاتھ موقع آجاتا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں انتخابات کے ذریعے طالب علموں کے نمائندہ اداروں کے قیام کو معاشرے اور خصوصاً کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے ماحول کی خرابی کی وجہ گردانیں۔

سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک اور ٹوئٹر پر ٹرینڈز وائرل ہونے لگتے ہیں، جس میں سٹوڈنٹس یونینز کے مخالفین اسلامک یونی ورسٹی کے واقعے کو مثال بنا کر ان کی بحالی کے خلاف دلائل دیتے ہیں۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونی ورسٹی کے ایک استاد نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’یونینز آگئیں تو اس سے زیادہ خون خرابہ ہو گا۔ یونین کی بحالی ہمارے تعلیمی اداروں کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گی۔‘

تاہم اسلامک یونی ورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کے باوجود سٹوڈنٹس یونینز کے حامی ان اداروں کو تعلیمی اداروں اور طالب علموں کی تربیت کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ جو جمعرات کی رات اسلامک یونی ورسٹی میں ہونے والی فائرنگ کے وقت وہاں موجود تھے کہتے ہیں ’کسی ایک انفرادی واقعے کو وجہ بنا کر یونینز کی افادیت ختم یا کم نہیں کی جا سکتی۔ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس یونینز کی موجودگی سے نہ صرف طلبہ کو فائدہ ہوگا بلکہ اس کالج یا یونی ورسٹی کے ماحول اور تعلیمی معیار میں بھی بہتری آئے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اسلامک یونی ورسٹی میں سٹوڈنٹس یونین ہوتی تو جمعرات کی رات یہ واقعہ پیش ہی نہ آتا۔‘

سٹوڈنٹس یونین ہے کیا؟

طالب علمی کے زمانے میں سٹوڈنٹس یونینز میں فعال کردار ادا کرنے والے لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ اکثر لوگ طالب علموں کی تنظیموں اور سٹوڈنٹس یونینز کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں بالکل الگ الگ ادارے ہیں۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یونین کسی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تمام طلبہ کی نمائندہ ادارہ ہوتی ہے۔ جو اس یونی ورسٹی یا کالج کی انتظامیہ کے سامنے سٹوڈنٹس کے مسائل لے کر جاتی اور انہیں حل کرواتی ہے۔

کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے (کالج اور یونی ورسٹی) میں زیر تعلیم تمام طلبہ اس ادارے کی سٹوڈنٹس یونین کے اراکین ہوتے ہیں اور ہر سال ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات کے ذریعے یونین کے عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

کسی بھی دوسری یونین کی طرح سٹوڈنٹس یونین میں صدر، نائب صدور، جنرل سیکریٹری، فنانس سیکریٹری اور مجلس عاملہ کے اراکین ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے یونی ورسٹیز ایکٹ کے تحت ہر یونی ورسٹی کے سنڈی کیٹ اور سینٹ میں اس یونی ورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ کی نمائندگی ضروری ہے۔ تاہم طلبہ یونینز پر پابندی کے باعث یونی ورسٹیوں کے اعلیٰ فورمز میں نامزد لوگ طلبہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

برطانیہ کی مشہور زمانہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین (او یو ایس یو) 22 ہزار اراکین پر مشتمل ہے۔ یونین کی ویب سائٹ کے مطابق او یو ایس یو کا مقصد آکسفورڈ یونی ورسٹی کے طالب علموں کی آکسفورڈ یونی ورسٹی کی فیصلہ سازی میں نمائندگی کرنا، اعلیٰ تعلیم سے متعلق پالیسی سازی کی قومی بحث میں طالب علموں کی آواز بننا اور یونی ورسٹی کے طلبہ کو خدمات فراہم کرنا ہے۔

پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری منظور احمد سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سٹوڈنٹس یونینز صرف طالب علموں کے مسائل ہی حل نہیں کرتیں بلکہ یہ انہیں بہت اچھی اور معیاری تربیت بھی فراہم کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 70 کی دہائی میں سٹوڈنٹس یونینز سے تربیت پانے والے کئی طالب علم آگے چل کر کامیاب اور بہترین سیاست دان بنے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ضروری نہیں کہ سٹوڈنٹس یونینز صرف سیاست دان ہی پیدا کرے۔ بلکہ یونینز سے حاصل ہونے والی تربیت آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں مقام دلاتی ہے۔

چوہدری منظور احمد کا کہنا تھا کہ یونینز کی وجہ سے طالب علموں میں مسائل کو حل کرنے کا جمہوری فہم پیدا ہوتا ہے اور وہ مہذب انداز میں بحث اور دوسروں کی بات سننے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھتے ہیں۔

پاکستان میں سٹوڈنٹس یونینز کی تاریخ

برصغیر کی تقسیم سے قبل مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جو آل انڈیا مسلم لیگ کا سٹوڈنٹس ونگ تھا، نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تقسیم کے بعد سٹوڈنٹس یونینز نے نومولود پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ طلبہ نے سٹوڈنٹس یونینز کے پلیٹ فارمز سے کئی مظاہروں اور احتجاجوں میں حصہ لیا۔

کئی ماہرین کے خیال میں طلبہ کے احتجاج نہ ہوتے تو شاید اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کبھی بھی استعفے نہ دیتے۔

طلبا یونینز کی اسی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے صدر جنرل ضیا الحق نے فروری 1984میں سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی عائد کر دی۔

شہنیلا زرداری روزنامہ ڈان میں لکھتی ہیں ’عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سٹوڈنٹس یونینز کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں تشدد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ طلبہ یونینز پر پابندی لگنے کے بعد بھی تعلیمی اداروں میں تشدد نہیں رک سکا۔‘

دراصل حقیقت یہ ہے کہ سٹوڈنٹس یونینز کی غیر موجودگی میں مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک سٹوڈنٹس ونگز تعلیمی اداروں میں زیادہ فعال ہو گئے۔

حتیٰ کہ طلبہ لسانی، مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بناتے ہوئے اپنی اپنی فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز بنا ڈالیں۔

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد 1988 میں سٹوڈنٹس یونینز پر سے پابندی اٹھائی لیکن یہ آزادی بہت مختصر ثابت ہوئی۔ 1993میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت طلبہ یونینز پر دوبارہ سے پابندی لگا دی گئی۔ جو اب تک برقرار ہے۔

پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں سٹوڈنٹس یونینز بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم وہ یہ وعدہ نبھانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

سال 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سٹوڈنٹس یونینز پر سے پابندی اٹھانے سے متعلق سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی۔ جو کثرت رائے سے منظور بھی ہو گئی لیکن اس قرار داد کو قومی اسمبلی سے منظور نہ مل سکی۔ جس کے باعث طلبہ یونینز کی بحالی کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

اور یوں نو فروری 2020 یعنی تقریباً دو ماہ بعد پاکستان میں سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی کو 36 سال پورے ہو جائیں گے۔

لیاقت بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تجویز پیش کی کہ تشدد کو روکنے یا تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے سٹوڈنٹس یونینز کے ضابطہ اخلاق کو مزید سخت بنایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کی کم سے کم عمر 18 سال ہے جبکہ اس سے زیادہ عمر کے طالب علم کو ہم کالج اور یونی ورسٹی میں اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق نہیں دیتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان