ہے تو بڑی عام سی بات مگر بہت سی خواتین کی طرح مجھے بھی لگتا ہے کہ ماں بننے کا احساس شاید دنیا میں سب سے حسین اور عورت کو مکمل کر دینے والا ہوتا ہے۔
ماں چاہے گھر کی چار دیواری میں رہتی ہو یا گھر سے باہرنکل کر کام کرتی ہو ،اپنے بچے اسے ہر طرح عزیز ہوتے ہیں اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں، لیکن کیا کریں جناب ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں سبھی دوسروں کو اپنی نظر اور ذہنی کیفیت سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
اگر کوئی ماں گھر پر رہتی ہے تو اسے اکثر یہ سننے کوملتا ہے کہ تم سارا دن کرتی کیا ہو؟ اور اگر کہیں ایک ماں گھر سے باہر نکل کر نوکری کر لے تو اسے کہا جاتا ہے کہ آپ گھر پر رہ کر بچے کیوں نہیں پالتیں؟
غرض انسان نہ کسی حال میں خوش رہتا ہے نہ رہنے دیتا ہے۔ تمہید لمبی ہو گئی مدعے کی جانب آتے ہیں ۔
گذشتہ چند روز سے پشاور کی ایک صحافی زینت بی بی اور ان کا چھ ماہ کا بیٹا خبروں میں گردش کر رہے ہیں۔ تقریباً سبھی چینلز، اخبار اورویب سائٹس بچے کی وجہ سے ان کےنوکری سے استعفیٰ دینے کی خبر کو ہمدردی اورحقوق نسواں کے نام پر چلا کر اچھے بھی بن رہے ہیں اور ریٹنگ بھی بڑھارہے ہیں حالانکہ میں خود بطور صحافی اور ایک ماں ہونے کے ناطے جانتی ہوں کہ زینت کی خبریں چلانے والے تمام اداروں میں ایسے بہت سے لوگ بیٹھے ہیں جو خود ایک خاتون صحافی یا گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی خاتون ،جو ماں بھی ہو اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
زینت بی بی کی خبر دیکھی تو مجھے یاد آنے لگا۔ بہت سی تلخ یادیں، مجبوریاں اور ساتھ کام کرنے والوں کا سفاک رویہ اور پیٹھ پیچھے میرے کیر یئر کے حوالے سے ان کے فیصلے کانوں میں گونجنے لگے۔
زندگی میں اب تک پاکستان میں دو مرتبہ ایسا تجربہ ہوا جب مجھے یہ ٹینشن نہیں ہوئی کہ کام پر بچہ ساتھ نہیں جا سکتا تو اسے کہاں چھوڑوں گی؟
پہلا تجربہ تب ہوا جب انڈپینڈنٹ اردو جوائن کیا اور ٹریننگ کے لیے اسلام آباد گئی۔ میں نے سفر سے پہلے ادارے کو بتایا کہ میرا بیٹا ساتھ ہی آئے گا کیونکہ تین ،چار روز کے لیے اسے کوئی نہیں رکھے گا۔
مجھے نہ صرف اسے ساتھ لانے کی اجازت ملی بلکہ اس کے رہنے سہنے کا خرچہ بھی ادارے نے اٹھایا۔ یو ں ایک ادارے نے ایک ماں کو اعتماد دیا کہ اس کے کام میں اس کا بچہ رکاوٹ نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری بار ایسا کب ہوا، یہ آگے چل کربتاتی ہوں۔ واپس زینت بی بی کی جانب چلتے ہیں ۔ زینت بی بی رہتی ہیں پشاور میں اور میری اچھی جاننے والی ہیں۔ چندماہ قبل میری ان سے ملاقات نتھیا گلی میں ہوئی جہاں ہم خواتین صحافیوں کی ایک ٹریننگ کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
یہاں دوسرا تجربہ ہوا جب ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن والوں نے مجھے اپنے بیٹے کو ساتھ لانے کی اجازت بغیر کسی بحث کے دی۔
نتھیا گلی پہنچی تو دیکھا زینت بی بی بھی اپنے چھوٹے سے زرک گل کے ساتھ وہاں موجود تھیں۔ اس کی کلکاریاں ، کبھی تھوڑا سا رونا ساری ٹریننگ کے دوران چلتا رہا۔ مگر آفرین ہے وہاں موجود تمام صحافی خواتین پر جنہوں نے اس کا ایشو نہیں بنایا اور ہم بچوں کی کسی بھی قسم کی پریشانی لیے بغیر وہ ٹریننگ کامیابی سے مکمل کر کے اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو لیے۔
یہاں میں یہ نہیں کہتی کہ مائیں ہر جگہ بچوں کو ساتھ لے کر جائیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر ان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں کہ وہ بچہ کسی کے حوالے کر کے آسکیں تو انہیں اتنی اجازت دے دینے سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔
مہوش حسیب لاہور میں ایک ڈے کیئر سینٹر اور ایک تعلیمی ادارہ چلاتی ہیں جہاں بچوں کو سکول کی پڑھائی سمیت مختلف قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جاتا ہے۔
مہوش پانچ برس پہلے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی تھیں، ان کی دو بیٹیاں اسی ملازمت کے دوران پیدا ہوئیں۔
مہوش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھیں کہ ان کی باس بھی خاتون تھیں اور انہوں نے مہوش سے پوری طرح تعاون کیا۔ مہوش اپنی بیٹیوں کو آفس ساتھ لے کر جاتی تھیں اور اپنے کمرے تک محدود رکھتی تھیں مگر پھر انہیں احساس ہوا کہ شاید وہ کام پر زیادہ دھیان نہیں دے پا رہیں۔
انہوں نے نوکری چھوڑ دی مگر ان کے دماغ میں ایک بات اٹک گئی کہ بچوں کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تو ورکنگ ماؤں کے لیے کوئی ایسی جگہ بنائیں جہاں وہ اپنے بچوں کو بے خوف ہو کررکھ سکیں۔
سو انہوں نے اپنا ادارہ کھول لیا، جہاں اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کے بچوں کو بھی مختلف کاموں میں مصروف رکھتی ہیں۔
ڈے کیئر سینٹر ایک کام کرنے والی ماں کی مشکل کا حل ہے مگر جب پی آئی اے کے ڈے کیئر سینٹر جیسی ویڈیوز لیک ہو جائیں یا کسی اور ڈے کیئر کی جہاں بچوں سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جارہا ہو تو کون سی ماں کا دل کرے گا کہ وہ اپنا بچہ وہاں چھوڑے۔
شاید آپ کے ذہن میں سوال آ رہا ہو کہ بھائی اتنی کیا مصیبت ہے ،کچھ عرصہ گھر بیٹھ جاؤ، بچے سکول جانا شروع کریں ، تب نوکری کر لینا یا اپنا کیرئیر بنا لینا۔
تو جناب، اس مشورے پر وہ مائیں عمل کر سکتی ہیں جو مالی طور پر مضبوط ہیں اور اگر وہ کچھ عرصے کے لیے نوکری چھوڑ بھی دیں تو انہیں شاید اتنا فرق نہ پڑے مگر ان خواتین کا کیا جو بیوہ یا طلاق یافتہ ہیں اور اپنے بچوں کی خود ہی کفیل ہیں؟
گھر بیٹھ جائیں؟ کسی غیبی مدد یا کسی کی خیرات کا انتظار کریں؟ خدارا دل بڑا کریں، میں اپنے دل کی بات بتا رہی ہوں کہ ایک عورت جب ماں بن کر اپنی نوکری پر واپس جاتی ہے تو بہت خوف زدہ ماحول میں کام کرتی ہے ۔
ڈر اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا دے کہ بچے کے بعد ان کی کارکردگی کم ہو گئی ہے اور اسی خوف میں وہ اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتی ہے ، مگر ہمارے معاشرے وہ پھر بھی نہیں بچتی کیونکہ اس کے کام میں مین میخ نکالی جاتی ہے، اگر اس کی ترقی ہونی ہو تو اسے بھی روک دیا جاتا ہے اور اسے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ زینت کی طرح استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
زینت کہتی ہیں کہ پشاور میں جب خاتون حاملہ ہوتی ہے تو ارد گرد لوگ اسے مشورے دینے لگتے ہیں کہ وہ اب نوکری چھوڑ دے۔ وہاں ڈے کیئر سینٹرز کا رواج نہیں لہٰذا خواتین کو اور بھی مسئلہ رہتا ہے۔
اب خیبر پختونخوا اسمبلی میں زینت کے استعفے کے بعد ایک قرارداد پیش کی گئی ہے، جس میں بلوچستان اسمبلی کی ایک خاتون رکن کا بھی ذکرکیا گیا، جنہیں مئی 2019 میں اسمبلی سے اس لیے نکال دیا گیا تھا کیونکہ ان کا بچہ ساتھ تھا۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کے پی میں سرکاری و غیر سرکاری دفاتر کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کنونشن 183اور سفارش نمبر 199 کے تحت کام 'ماں دوست' بنایا جائے۔
زینت نے بتایا کہ وہ جس این جی او میں ایک ماہ سے نوکری کر رہی تھیں وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی تھی۔ وہاں مردوں کی تعداد زیادہ جبکہ خواتین آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مردوں کی تنخواہیں لاکھوں میں جبکہ خواتین کی تنخواہیں ان سے کم تھیں۔
عامر فراز ایک سرکاری بینک کے بڑے افسر ہیں اور ایک شعبے کے سربراہ بھی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا وہ خواتین کے کام کرنے کے حق میں ہیں، چاہے وہ ماں ہی کیوں نہ ہو۔
عامر کہتے ہیں کہ عورت کو اپناکیریئر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے بینک کی کسی بھی برانچ میں خواتین کے لیے ڈے کیئر سینٹر نہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے اپنے بینک کی سینیئر خواتین کو، جو بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھی ہیں، ان سے بھی کئی بار بات کی مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ عامر صاحب آپ اس مسئلے کو رہنے دیں۔
عامر فراز کے ماتحت کام کرنے والی خواتین میں سے کچھ مائیں بھی ہیں اور اکثر انہیں اپنے بچے ساتھ لانے پڑتے ہیں۔
عامر نے اپنا ایک ایگزیکٹیو میٹنگ روم، جو کسی کے زیر استعمال نہیں تھا، ان خواتین کے لیے مختص کر دیا، جہاں وہ نماز پڑھ سکتی ہیں کھانا کھا سکتی ہیں، تھوڑا آرام کر سکتی ہیں اور اپنی کسی مدد گار کے ہمراہ اپنے بچوں کو بھی وہاں چھوڑ سکتی ہیں۔
عامر نے بتایا کہ جب انہوں نے ایسا کیا تو ان کے ماتحت کچھ مرد حضرات کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور انہوں نے ایک دو بار بغیر کسی وجہ کے اس کمرے میں خواتین کی موجودگی میں جانے کی کوشش کی جس پر انہیں خبردار کیا گیاکہ وہ آئندہ ایسا نہ کریں ورنہ ان کے خلاف ایکشن ہو سکتا ہے۔
تو ایسے افسران شاذ و نادر ہی سننے اور دیکھنے میں ملتے ہیں۔ اپریل 2019 میں پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن حنا پرویز بٹ نے پنجاب ترمیمی بل برائے بہبود زچہ و بچہ 2019 جمع کروایا ، جس کے تحت پہلے سے موجود بہبود برائے زچہ و بچہ آرڈیننس 1958 میں ترامیم کی تجویز دی گئی تھی تاکہ نوکری کرنے والی خواتین کو مزید سہولیات دیے جانے کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس ترمیمی بل میں تجویز کیا گیا تھا کہ ہر اس دفتر میں جہاں 50 سے زائد خواتین کام کر رہی ہیں اور انہیں ملازمت کرتے ہوئے چار ماہ ہوچکے ہیں، ان کے لیے دفتر میں ایک ڈے کیئر سینٹر لازمی بنایا جائے گا ،جہاں چھ سال تک کے بچے آسکیں گے۔
اسی طرح ہر ماں کو دن میں چار مرتبہ ڈے کیئر میں جاکر اپنے بچے کو دیکھنے کی اجازت ہو گی، دن میں دو مرتبہ خواتین کو اپنے ڈیڑھ سال تک کے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے وقفہ دیا جائے گا۔
بل یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ کوئی بھی آجر اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ہر خاتون کو بچے کی پیدائش پر 24 ہفتوں کی چھٹی دی جائے گی اور اگر خاتون کو دوران حمل کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے تنخواہ کے ساتھ چھ ہفتے کی چھٹی دی جائے گی۔
اس ترمیمی بل کے پیش ہونے پر ورکنگ مائیں بہت خوش تھیں مگر اس نئے پاکستان میں یہ ترمیمی بل اب تک منظور نہیں ہوا۔ خیر کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔