حالات کو کیا ہوا ہے، صبح آتے وقت تو حالات ٹھیک تھے: وقار احمد سیٹھ

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھنے والے خصوصی عدالت کے تین ججوں میں شامل جج وقار احمد سیٹھ اپنے کچھ الفاظ کی وجہ سے پاکستان میں وجہ بحث بنے ہوئے ہیں۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فوٹو: خیبر پختونخوا جوڈیشل اکیڈمی)

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھنے والے خصوصی عدالت کے تین ججوں میں شامل جج جسٹس وقار احمد سیٹھ اپنے کچھ الفاظ کی وجہ سے پاکستان میں وجہ بحث بنے ہوئے ہیں۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پرویز مشرف کی سزائے موت کے حوالے سے اپنے تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 لکھا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کی گرفتاری کو یقینی بنائے اور ’اگر مجرم مردہ حالت میں پایا جائے تو لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک تک گھسیٹ کر لایا جائے اور وہاں تین دن تک لٹکایا جائے۔‘

ان کے الفاظ کے بعد سیاسی و عسکری حلقوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جمعے کو پشاور میں ایک کیس کی سماعت کے موقعے پر سینیئر وکیل معظم بٹ اور جسٹس وقار احمد سیٹھ کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔

سینیئر وکیل معظم بٹ نے چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کیا اور کچھ یوں کہا: ’سر آپ اچھے فیصلے کرتے ہیں، خراج تحسین کے مستحق ہے۔‘

اس کے بعد معظم بٹ نے ان سے کہا کہ اتنے سخت حالات میں بھی آپ کے چہرے پر اطمینان و سکون نظر آ رہا ہے۔ جس پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ ’حالات کو کیا ہوا ہے صبح آتے وقت تو حالات ٹھیک تھے۔‘

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔ سپورٹس چینل پر صرف ریسلنگ دیکھتا ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا یہ جواب سن کر ایک مرتبہ پھر ایڈوکیٹ معظم بٹ نے کہا کہ ان حالات میں آپ کا مطمئن رہنا بڑی بات ہے۔

اس پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایڈوکیٹ سے طنزیہ انداز میں سوال کیا کہ ’آپ نے بھی تو کچھ نہیں کہنا؟‘

واضح رہے کہ گذشتہ روز خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے بعد پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ سابق صدر کے خلاف آنے والے تفصیلی عدالتی فیصلے سے وہ تمام خدشات درست ثابت ہو گئے جن کا اظہار مختصر فیصلے کے بعد کیا گیا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے میں استعمال ہونے والے الفاظ مذہب، انسانیت، تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہیں۔

جس کے بعد گذشتہ رات ہی پاکستان بار کونسل کا بھی ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں میجر جنرل آصف غفور کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی شیر محمد خان اور نائب چیئرمین سید امجد شاہ  کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاکستان بار کونسل ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے اس بیان کو رد کرتی ہے، جس میں انہوں نے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر سنگین غداری کے مقدمے میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بیان میں کہا گیا: ’ہماری یہ رائے ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان آئین اور قانون کی واضح خلاف ورزی ہے اور یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔‘

وکیل معظم بٹ نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ان کا یہ مکالمہ آج عدالت کے احاطہ مجں میں ایک کیس کی سنوائی کے بعد ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ مشرف کے حوالے سے عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن اس نکتے سے اختلاف کرتے ہیں کیوں کہ اس میں قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان