کرونا سے وفات پانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ کون تھے؟

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھنے والے خصوصی عدالت کے جج اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کرونا کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔

وقار احمد سیٹھ 1985 میں ذیلی عدالتوں کے وکیل بنے، 1990 میں پشاور ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں بطور ایڈووکیٹ وکالت کا آغاز کیا

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھنے والے خصوصی عدالت کے جج اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کرونا کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کرونا کے مرض میں مبتلا تھے اور پچھلے کچھ عرصے سے اسلام آباد میں نجی ہسپتال کلثوم انٹرنیشنل میں زیر علاج تھے۔

ان کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ چند دن قبل میں ان کی حالت بہتر ہو گئی تھی تاہم گذشتہ روز اچانک ان کی طبیعت خراب ہوئی جس کے بعد انہیں وینٹیلیٹر پر منتقل کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ تقریباً دو ہفتوں سے اس مرض میں مبتلا تھے۔

ان کی تدفین جمعہ (13 نومبر) کو پشاور میں ان کے آبائی قبرستان میں ہوگی۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پسماندگان میں بیوہ اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔

ان کے انتقال پر صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز نے دکھ کا اظہار کیا اور تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

مشترکہ بیان کے مطابق ‏ملک بھر کی عدالتوں میں ماسوائے ارجنٹ معاملات کے وکلا پیش نہیں ہوں گے۔

خیال رہے کہ وقار احمد سیٹھ خصوصی عدالت کے وہی جج تھے جنہوں نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھا تھا۔

جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے مشرف کو پھانسی دینے کا مختصر فیصلہ 17 دسمبر کو سنایا تھا جبکہ تفیصلی فیصلے میں کئی نکات انتہائی اہمیت کے حامل تھے لیکن ایک پیراگراف پر حکومت اور فوج نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

اس کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ لاپتہ افراد اور ملٹری کورٹس سے سزا پانے والے افراد کے مقدمات کی سماعت بھی کرتے رہے ہیں۔

جبکہ ان کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنا کر ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کون ہیں؟

جسٹس وقار کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ انہوں نے 1977 میں کینٹ پبلک سکول پشاور سے میٹرک جب کہ ہائیر سیکنڈری تعلیم ایف جی انٹر کالج فار بوائز سے حاصل کی۔

ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور سے 1981  میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

جسٹس وقار کے گومل یونیورسٹی کے ساتھی اور پشاور کے سینیئر صحافی شمیم شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وقار سیٹھ  نے ایک سال سے کم عرصہ گومل یونیورسٹی کے شعبہ وکالت میں گزارا۔ وہ اس کے بعد پشاور یونیورسٹی کے لا کالج چلے گئے اور وہاں سے 1985 میں لا کی ڈگری حاصل کی۔

شمیم شاہد کے مطابق انہوں نے ہمیشہ وقار سیٹھ کو خاموش طبعیت دیکھا اور وہ کبھی بھی زمانہ طالب علمی میں سیاست میں سرگرم نہیں رہے۔ ’وقار سیٹھ سکول کے زمانے سے پشاور میں رہے اور ڈگری مکمل کرنے کے بعد شہر کی پیر بخش عمارت میں ان کا دفتر تھا، جن کے ساتھ ہی میرا دفتر بھی واقع تھا۔‘

وقار احمد سیٹھ 1985 میں ذیلی عدالتوں کے وکیل بنے، 1990 میں پشاور ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں بطور ایڈووکیٹ وکالت کا آغاز کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر جسٹس وقار سیٹھ کی درج پروفائل میں لکھا گیا ہے کہ وہ 2011 میں بینچ کے ایڈیشنل جج بنے اور پشاور ہائی کورٹ میں بینکنگ جج کے حیثیت سے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔

اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے کمپنی جج بن گئے اور جوڈیشری سروس ٹریبیونل کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔  آج کل وہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں اور مشرف کیس میں سپیشل کورٹ کے جج تھے۔

روزنامہ ڈان سے وابستہ صحافی وسیم احمد شاہ کے مطابق انہوں نے جسٹس وقار سیٹھ کو وکیل سے لے جج بننے تک دیکھا، وہ کسی سے ڈرنے اور دباؤ لینے والے جج نہیں تھے۔

’جسٹس وقار سیٹھ بے خوف جج تھے جو میرٹ پر فیصلے کرتے اور کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ انہوں نے کوئی فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا ہو۔‘

انہوں نے مزید بتایا ’جسٹس وقار سیٹھ وکالت کے زمانے میں وکلا سیاست سے دور رہے اور کبھی وکلا الیکشن میں حصہ نہیں لیا، وہ میڈیا کی چکا چوند سے بھی دور رہتے تھے۔‘

جسٹس وقار سیٹھ کے اہم فیصلے

جسٹس وقار سیٹھ کے اہم ترین فیصلوں میں نمایاں فیصلہ 2018 کا فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 74 مبینہ دہشت گردوں کی سزائیں معطل کرنے کا فیصلہ ہے۔

ایک اور مقدمے میں انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کو زیادہ اختیارات دینے کے خلاف بھی فیصلہ دیا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے پشاور میں بننے والی بس ریپیڈ ٹرانسٹ (پشاور میٹرو) کے خلاف ایک پیٹیشن میں فیصلہ دیا تھا کہ اس منصوبے کی قومی احتساب بیورو سے تحقیقات کرائی جائیں۔

اس کے علاوہ حال ہی میں بی آرٹی ہی کے حوالے سے ایک اور فیصلے میں انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان