غدار کون ہے؟

عدالت سے غداری کا میڈل لینے والا ڈکٹیٹر یا کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ماورائے عدالت گھر سے اٹھا لیے جانے والا طالب علم؟

سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی پارٹی کے کارکن کراچی میں ان کے حق میں مظاہرے کے دوران (اے ایف پی)

آئین کیا ہے؟ جمہوریت پسندوں کے لیے یہ وہ مقدس کتاب ہے جو ریاست اور ریاست کے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ ہاں جنگل کا کوئی دستور نہیں ہوتا، قاتلوں کے پاس کوئی آئین نہیں ہوتا البتہ مہذب معاشروں کی پہچان ان کا آئین ہی ہوتا ہے۔

یہ الگ بات کہ وہی آئین آمروں کے لیے کاغذوں کے پلندے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں ایسے ہی ایک آمر حکمران نے کہا تھا کہ یہ آئین کیا ہے؟ کاغذوں کا ایک ایسا پلندہ جسے میں جب چاہے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہوں۔ اس کے بعد کی کہانی مورخ لکھتا ہے کہ آئین کی حیثیت اس مملکت خداداد میں کاغذوں کے پلندے سے زیادہ کچھ نہ رہی اور ہر دور کا آمر ان پلندوں سے ناک صاف کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔ معذرت چاہتا ہوں، بات کچھ تلخ ہے لیکن سچ یہی ہے اور کڑوا سچ ہضم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ 

پاکستان میں پہلا مارشل لا ہی اس بات کا اعلان تھا کہ یہاں تخت پر سول حکمرانی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک پس پردہ چلنے والی اصل حکومت کے فیصلوں کو من وعن  تسلیم نہ کیا جائے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جب بھی کسی منتخب سیاست دان نے سر اٹھانے کی جرات کی تو اسی وقت اس پر مقدمات قائم کر دیئے گئے۔

تاریخ گواہ ہے کہ یہاں سینیئر سیاست دانوں پر بھینس چوری کے مقدمات بھی درج ہوئے، ورنہ کلاشنکوف برآمد کروانا تو کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے اور اب لگ بھگ چھ ماہ سے قید سابق وزیر قانون پر منشیات ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس برآمدگی کی باقاعدہ ویڈیو بنی ہے لیکن وہ ویڈیو بھی آج تک سامنے نہ آ سکی۔ 

ملک میں بظاہر جمہوریت پنپ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر ایسی حکومت قائم کی جاتی رہی ہے جس کی اصلیت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے کیس کا فیصلہ سامنے آیا اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ پرویز مشرف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا اور نہ ہی ان کو سنا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کیس چھ سال چلتا رہا لیکن پرویز مشرف پیش نہ ہوئے۔

 اس سے بھی اہم بات یہ ہوئی کہ جس کیس میں  پہلے ریاست مدعی تھی اب اسی کیس میں ریاست مجرم کی حمایت کرنے لگی۔ وفاقی وزیر اور اٹارنی جنرل نے فیصلہ سنانے والے جج کے خلاف بیانات دیئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بات بس اتنی سی ہے کہ یہاں ایک نہیں دو ریاستیں قائم ہیں۔ یہاں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک ہم ایسے مظلوم، لاچار اور بے بس جو کہ 95 فیصد عوام کہلاتے ہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جس کے لیے یہ ملک چراہ گاہ ہے۔ جسے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد یا تو دوبارہ کسی بڑے عہدے پر لگا دیا جاتا ہے یا پھر وہ ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ پاکستان کے سول صدور اور پرویز مشرف کے لائف سٹائل میں فرق کون نہیں جانتا۔ مشرف سے پہلے موجود صدر رفیق تارڑ اور مشرف کی زندگی میں اتنا فرق کیوں ہے؟ کیا ایک 22 گریڈ کا سرکاری ملازم ایسی زندگی گزار سکتا ہے؟ نیب سے لے کر ایف آئی اے تک تمام ادارے ہم مظلوم عوام کے ایک ایک روپیہ کا حساب لیتے ہیں۔ ان اداروں کو ہم سے پوچھنا بھی چاہیے لیکن کیا یہ ان آمروں سے بھی ریکارڈ طلب کرتے ہیں؟

کیا کسی سیاست دان نے اس طرح تخت الٹا ہوتا یا ایمرجنسی لگائی ہوتی تو اس کے لیے بھی اسی طرح کا بیان دیتے اور حکومت وقت بھی اسی طرح اپنی روایات اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتی؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مشرف کیس میں عدالتی فیصلہ کے بعد کہا گیا پرویز مشرف غدار نہیں ہو سکتے۔ تکلیف ہمیں بھی ہوتی ہے جب اس ملک کا نظام بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے سوال پر غداری کا فتوی ملتا ہے۔ درد تو تب بھی ہوتا ہے جب سوال کرنے پر اٹھا لیے جاتے ہیں، جب لاپتہ ہو جاتے ہیں اور رکھے جاتے ہیں کسی ایسے بند کمرے میں جہاں نہ دن کا علم ہوتا ہے اور نہ رات کی خبر ملتی ہے۔

وقت ملے تو بتایئے گا غدار کون ہے؟ عدالت سے غداری کا میڈل لینے والا ڈکٹیٹر یا کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ماورائے عدالت گھر سے اٹھا لیے جانے والا طالب علم؟ ہم غدار نہیں ہیں البتہ پاگل ہو سکتے ہیں کیونکہ بیمار معاشرے میں رہ کر تازہ ہوا کے بارے میں سوچنے والا دماغ نارمل نہیں ہو سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ