مدت ملازمت: آرمی چیف کی مدعیت میں مشترکہ نظرثانی درخواست

حکومت کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کا پوری تفصیل، غور اور باریکی سے مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ اس میں کئی ایک قانونی خامیاں ہیں جن پر عدالت عظمیٰ کو دوبارہ سے غور کرنا چاہیے: فردوس عاشق اعوان

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  رواں برس یومِ پاکستان  کی پریڈ کے موقع  پر (تصویر: اے ایف پی)

وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائرکر دی ہے۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم جمعرات کی صبح سپریم کورٹ کی عمارت آئے جہاں انہوں نے عدالت عظمیٰ کے رجسٹرارسے ملاقات کی۔

اس موقعے پر انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست آج کسی وقت جمع کروا دی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم دوپہر کے بعد وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں میڈیا سے اس متعلق گفتگو کی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کے اعلیٰ عدالت میں جمع کرائے جانے کی تصدیق کی۔

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے مطابق: ’حکومت کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کا پوری تفصیل، غور اور باریکی سے مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ اس میں کئی ایک قانونی خامیاں ہیں جن پر عدالت عظمیٰ کو دوبارہ سے غور کرنا چاہیے۔‘

یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک تین رکنی بینچ نےگذشہ ماہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی اجازت دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کی ہدایت کی تھی۔

اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے سے سبکدوش تصور ہوں گے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر کو ریٹائر ہونا تھا، تاہم وزیراعظم عمران خان نے ان کی ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی تھی جسے ریاض حنیف راہی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

درخواست کے اہم نکات

نظرثانی کی درخواست صدر پاکستان، وفاقی حکومت، وزیراعظم اور آرمی چیف کی مدعیت میں دائر کی گئی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’پاکستان کے دشمنوں کو یہ سوچ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع یا از سرنو تعیناتی کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ پاکستان کو ففتھ جنریش جنگ کا سامنا ہے۔‘

مزید کہا گیا: ’ملکی تحفظ اور سلامتی کے لیے اقدامات میں جنرل باجوہ کا کردار تاریخ میں زندہ رہے گا۔ جنرل باجوہ کی دوبارہ تعیناتی کا عوامی سطح پر گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ جنرل باجوہ کی دوبارہ تعیناتی کے لیے سیمینار ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔ اس صورت حال سے عوامی رائے کی نبض کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جنرل باجوہ کو دوبارہ تعینات کرنا بہت مناسب تھا، جنہوں نے خود کبھی دوبارہ تعیناتی کی خواہش ظاہر نہیں کی۔‘

اٹارنی جنرل انور منصور کے ہاتھوں سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی نظر ثانی کی درخواست میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو قانون اور حقائق کے لحاظ سے برا فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔

نظر ثانی درخواست میں کہا گیا کہ فیصلے میں کئی بے ضابطگیوں کی موجودگی نے اسے انصاف کے حصول کا ذریعہ ہونے کے بجائے نا انصافی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

درخواست گزار کے مطابق: ’عدالت نے آئین پاکستان میں بیان کردہ قوانین اور دوسرے اہم قوانین کو بالکل بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا، اسی لیے وسیع تر عوامی مفاد کے پیش نظر یہ درخواست دائر کی جارہی ہے۔‘

درخواست میں مزید کہا گیا کہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ اغلاط سے بھرپور ہے، جو فیصلے کی سطح پر تیرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

درخواست کے مطابق حکومت نے آرمی چیف کو مزید تین سال تک تعینات کرنے کا شعوری فیصلہ کیا تھا، باقی سب انتظامی معاملات تھے۔

مزید کہا گیا کہ عدالت کا فیصلہ قانون اور حقائق میں برا ہے، عدالت کے اختیار سے باہر ہے اور اس کا کوئی قانونی اثر نہیں۔

درخواست کے مطابق تنازع کی نوعیت منفرد ترین کیسز میں سے ایک ہے جس میں معزز عدالت کو عوامی مفاد اور اجتماعی شعور کو بنیاد بنا کر دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

مزید کہا گیا کہ ’معزز عدالت کا کوئی کردار نہیں کہ وہ طویل عرصے سے چلی آنے والی تسلیم شدہ روایات اور حکومت کی پالیسی میں خلل ڈالے۔ اگر کسی معاملے پر آئین اور قانون سازی میں خلا ہے، یعنی آئین اور قانون میں اس پر کوئی ذکر نہیں تو چلی آنے والی روایات کو ہی مانا جاتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان