’سوویت جنگ کے بعد پاکستان کو کابلی پلاؤ کا تحفہ ملا‘

پشاور کے صدر بازار میں ہوٹل چلانے والے خیر اللہ کے مطابق پاکستانی بریانی بہت اچھی بناسکتے ہیں جب کہ ان کی خاص ڈش پلاؤ ہے۔

(سوویت یونین کی فوجوں نے 27 دسمبر 1979 کو افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس موقعے پر ایک خصوصی سیریز کا آغاز کیا ہے، جس میں آپ آنے والے دنوں میں اس تاریخ ساز واقعے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحریریں اور تجزیے پڑھیں گے۔)


خیر اللہ کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے والد افغانستان میں سوویت جنگ کے دنوں میں پاکستان منتقل ہو کر مہاجر بن گئے۔ انہوں نے راولپنڈی میں ایک گھر کرائے پر لے لیا اور گزر بسر کے لیے ایک چھوٹا سا ہوٹل کھول لیا۔

20 سال قبل راولپنڈی میں کھلنے والا یہ ہوٹل چند سال بعد پشاور منتقل ہوگیا، جس کی خاص ڈش کابلی پلاؤ ہے۔

پشاور کے صدر بازار میں واقع یہ ریسٹورنٹ اب خیر اللہ چلارہے ہیں، جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خیر اللہ نے بتایا کہ چونکہ افغان لوگ کابلی پلاؤ کو بہتر طریقے سے بنا سکتے ہیں اس لیے ان کے ہوٹل میں زیادہ ڈیمانڈ بھی کابلی پلاؤ کی ہی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’افغانستان میں سوویت جنگ کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوگیا اور دیگر افغان مہاجرین کی طرح پشاور میں پلاؤ متعارف کرایا، جو پاکستانیوں کے لیے ایک تحفہ تھا۔‘

خیر اللہ نے بتایا کہ پاکستانی بریانی بہت اچھی بناسکتے ہیں جب کہ ان کی خاص ڈش پلاؤ ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ پشاور میں آپ کو ایسے پاکستانی شیف مشکل سے ملیں گے، جو پلاؤ بنا سکتے ہوں اور اس کا ذائقہ بالکل اصل کابلی پلاؤ جیسا ہو۔

کابلی پلاؤ کس طرح تیار ہوتا ہے؟

خیر اللہ نے بتایا کہ کابلی پلاؤ پکانے میں تقریباً چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ شیف صبح سویرے چھ بجے اٹھ کر پکانے کی تیاری شروع کرتے ہیں، جس میں پہلا کام چاول کو پانی میں دو گھنٹے تک بھگونا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیف کو تیار کیا جاتا ہے کیونکہ اوریجنل کابلی پلاؤ بیف یا مٹن کے ساتھ ہی پکایا جاتا ہے۔

خیر اللہ کے مطابق اس کے بعد دیگر مصالحے اور پیاز کو بڑے پتیلے میں تَل لیا جاتا ہے اور بیف کو اس میں ڈال کر پکایا جاتا ہے۔

بیف پکنے کے بعد اس میں چاول ڈالے جاتے ہیں اور اس کو دم پر رکھا جاتا ہے۔

ابن سینا: جدید پلاؤ کے موجد؟

تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ جدید پلاؤ، جس کو کچھ کتابوں میں ’فولاپ‘ یا ’پیلاؤ‘ بھی لکھا گیا، بہت پرانا ہے اور بعض مورخین اس کو دسویں صدی میں ایک مسلمان سائنس دان ابن سینا کے ساتھ جوڑتے ہیں۔

فارسی پلاؤ یا کابلی پلاؤ کی تاریخ کا ذکر گیری پال نبھن نے اپنی کتاب ’Cumin, Camels, and Caravans: A Spice Odyssey‘ میں کیا ہے، جن کے مطابق ’فارسی تاجک پلاؤ‘ وسطی ایشیا کا بہت اہم پکوان سمجھا جاتا ہے جو بغداد، بخارا اور سمرقند سے لے کر دوشنبے اور کابل تک کے لوگوں میں مشہور ہے۔

مورخ لکھتے ہیں کہ اس پکوان کو بخارا کے یہودیوں اور اسماعیلیوں نے پسند کرکے قبول کیا۔ اسی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ پکوان کے بہت سے تاریخ دان دسویں صدی میں مسلمان سائنس دان ابن سینا کو جدید پلاؤ کے طریقہ کار کا موجد سمجھتے ہیں اور انہیں جدید پلاؤ کا ’باپ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

پلاؤ کا ذکر 1868 میں ارمینیس وامبرے کی ایک کتاب ’Sketches of Central Asia‘ میں بھی ملتا ہے جو وسطی ایشیا کے ممالک کا ایک سفرنامہ ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے لکھا کہ وہ وسطی ایشیا کے ممالک کا سفر کرتے ہوئے پلاؤ سے متعارف ہوئے اور بعد میں چاہا کہ اس کی ترکیب سیکھ کر اسے برطانیہ میں متعارف کروائیں۔

انہوں نے لکھا کہ ان دنوں چربی کو تَل کر اس میں پلاؤ پکایا جاتا تھا جس میں گوشت، گاجر کے پسے ہوئے ٹکڑے اور مرچ شامل کی جاتی تھی اور بعد میں اس میں چاول ڈال دیے جاتے تھے۔

انہوں نے لکھا کہ یہ پکوان شاہی خاندانوں کی میزوں اور غریبوں کی جھونپڑیوں میں بھی ملتا تھا۔ بعد میں یہ وسطی ایشیا سے فارسی علاقوں میں منتقل ہوا، جس کا نام کابلی پلاؤ رکھا گیا اور اس کے بعد یہ ایشیا کے دیگر ممالک میں مشہور ہوگیا۔

پاکستان میں اب پلاؤ تمام چھوٹے بڑے شہروں کے ہوٹلوں میں دستیاب ہوتا ہے، جن کے پکانے والے زیادہ تر وہی افغان مہاجرین ہیں جو افغان ’جہاد‘ کے بعد یہاں آکر قیام پذیر ہوئے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا