’ہمارے مقدس مقام پر حملہ ہوا اور ایف آئی آر بھی درج نہ ہوئی‘

چئیرمین پنجابی سکھ سنگت گوپال سنگھ چاولہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کی کمیونٹی خوف زدہ ہیں۔ ’جب جس گروہ کا دل چاہے گا، ان کا اپنا کوئی مسئلہ ہو گا تو وہ گردوارے پر حملہ کر دیں گے۔ اب تک ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘

بھارتی صحافی برکھا دت نے اپنی ٹویٹ میں اس واقعے کوناقابل قبول اور ناقابل معافی قرار دیا اور اس پر فوری ایکشن کا مطالبہ کیا۔ (سکرین گریب)

جمعے کے روز پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں چند مشتعل افراد نے گردوارہ ننکانہ صاحب جنم استھان کا گھیراؤ کر لیا اور اس کے باہر تقریباً چار گھنٹے تک  سکھ کمیونٹی کے خلاف مظاہرہ اور نعرے بازی شروع کی۔

مقامی افراد اور سوشل میڈیا پر آنے والی ذاتی ٹویٹس کے مطابق اس مظاہرے کے دوران گردوارے کے اندر بیسیوں سکھ جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے، محصور ہو کر رہ گئے۔

 چئیرمین پنجابی سکھ سنگت گوپال سنگھ چاولہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جمعے کی نماز کے بعد احسان نامی ایک شخص اور ان کے اہل خانہ نے اعلان کیا کہ لوگ اکٹھے ہو جائیں اور ایک دم انہوں نے گردوارے پر حملہ کردیا۔ گوپال چاولہ نے بتایا کہ احسان نامی شخص کے اہل خانہ اور ان کے رشتے داروں میں مقامی ٹی سٹال پر ایک جھگڑا ہوا جس کے بعد پولیس ان کے چچا، تایا اور چند دیگر رشتے داروں کو  گرفتار کر کے لے گئی۔ انہیں چھڑوانے کے لیے ان لوگوں نے اس جھگڑے کومذہبی رنگ دیا اور سکھ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جب کہ سکھوں کا تو اس میں مسئلہ ہی کوئی نہیں تھا۔

گوپال چاولہ نے مزید بتایا کہ مشتعل افراد کے ایک گروہ نے اچانک گردوارے کے گیٹ پر دھاوابول دیا ۔ ہم لوگ اور پولیس وہاں موجود تھی اس لیے ہجوم گردوارے کے اندر داخل نہ ہو سکا۔ اس وقت گردوارے کے اندر پچاس کے قریب مرد ، عورتیں اور بچے موجود تھے۔  گوپال سنگھ کے مطابق مظاہرین شام چار سے رات آٹھ بجے تک گردوراے کے گیٹ پر کھڑے رہے اور سکھ کمیونٹی کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے، نہ کسی کو اندر جانے دیا نہ باہر آنے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 جنوری کو سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ مہاراجہ کا جنم دن منایا جاتا ہے اور اس کی خصوصی تقریبات عام طور پر 3 جنوری سے شروع ہو جاتی ہیں مگر اس احتجاج اور مظاہرے کی وجہ سے سکھ کمیونٹی ان تقریبات کو نہیں منا سکی۔ ہمیں گردوارے کے اندر نہیں جانے دیا گیا، عبادت نہیں کرنے دی۔ ہماری ایک تقریب بھی تھی لیکن انہوں نے کسی کو اندر داخل نہیں ہونے دیا۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پرچلنے والی خبروں اور ویڈیوز کے مطابق مظاہرین نے الزام لگایا ہے کہ  ننکانہ صاحب پولیس تھانہ سٹی نے موگا منڈی کے رہاٸشی احسان کے گھر چھاپہ مارا خواتین اور بچوں پر بھی تشدد کیا۔

احسان کون ہے اور اس واقعے کو مذہبی رنگ کیوں دیا جارہا ہے؟

بظاہر اس واقعے کو گذشتہ برس اسی شہر میں پیش آنے والے واقعے کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ اگست 2019 میں یہاں مقیم ایک مسلمان خاندان پر سکھ برادری کی ایک 19 سالہ لڑکی جگجیت کور کومبینہ طور پر اغوا کرنے اور جبری مذہب تبدیل کروا کر احسان نامی لڑکے سے ان کی شادی کر دینے کا الزام ہے۔ اس کیس میں احسان کے خاندان کے چھ افراد پر ننکانہ پولیس سٹیشن میں مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ جس کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں ۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اس وقت دونوں خاندانوں کی گورنر ہاوس میں صلح بھی کروا دی تھی جب کہ عدالت عالیہ نے لڑکی کو دارالامان بھیج دیا تھا جہاں لڑکی نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔ لڑکی بضد ہے کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اور میں اپنے خاوند احسان کے ساتھ ہی رہوں گی۔

جمعے کے روز احسان کے خاندان نے مبینہ طور پریہ الزام عائد کیا کہ مقامی پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور گھر میں موجود خواتین اور بچوں پر تشدد کیا۔ احسان کے بھائی عمران نے مظاہرے کے دوران بتایا کہ پولیس احسان سمیت ان کے دیگر رشتہ داروں کو ساتھ لے گئی ہے۔ یاد رہے کہ احسان اور جگجیت کور کے کیس کی سماعت 9 جنوری کو ہونا تھی۔ احسان کے اہل خانہ نے یہ الزام بھی لگایاکہ ننکانہ صاحب پولیس ان کے خاندان پر دباٶ ڈال رہی ہے کہ لڑکی کو واپس کر دیا جائے اور ان کے خاندان کو پولیس ہراساں نہ کرے۔

احتجاج میں سکھوں کو دھمکانے والا شخص کون ہے؟

گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر ہونے والے احتجاج اور مظاہرے کی جتنی بھی ویڈیوز اب تک سامنے آئیں ہیں ان میں ایک داڑھی والا شخص واضح طور پر دیکھا سکتا ہے جو بہت جارحانہ انداز میں سکھ کمیونٹی کو دھمکیاں دے رہا ہے اور ان کے خلاف نعرے بازی کر رہا ہے۔ اس شخص نے یہاں تک کہہ دیا کہ ننکانہ صاحب کا نام تبدیل کر کے ’غلام مصطفی‘ رکھ دیا جائے گا۔ اس داڑھی والے مقامی احتجاجی نے باقاعدہ سکھ کمیونٹی کو للکارا اور دھمکی دی کہ ننکانہ صاحب میں وہ کسی بھی سکھ کو رہنے نہیں دیں گے جس کے بعد سکھ کمیونٹی میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔ اسی داڑھی والے شخص کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ہر جگہ گردش بھی کر رہی ہے۔ اس نے  گردوارے کی جگہ مسجد بنانے کی بھی بات کی جب کہ ساتھ ہی ساتھ ’ہماری لڑکی واپس کرو‘ کا مطالبہ بھی کرتے دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ آخر یہ شخص ہے کون؟

پنجابی سکھ سنگت کے چئیرمین گوپال سنگھ چاولہ نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ’اس شخص کا نام عمران ہے اور یہ احسان کا بھائی ہے۔ اسی نے لوگوں کو جمع کیا، ان کے والد کا نام ذوالفقار چشتی ہے اور عمران احسان سمیت یہ پانچ بھائی ہیں۔ ان کے والد کچھ عرصہ پہلے تک اسی گردوارے کے ملازم تھے جس پر انہوں نے حملہ کیا ہے۔‘  

سماجی رابطوں پر گردوارہ ننکانہ ساحب پر حملے کا ردعمل کیا؟

جمعے کو ہونے والے اس واقعے نے سوشل میڈیا پر کافی آگ پکڑی، پاکستان اور بھارت دونوں جگہ سے اس واقعے کو مذہبی رنگ دے کر اچھالا گیا ۔ خاص طور پر بھارت کی جانب سے سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعے کی کافی مذمت کی۔  مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے اپنی ٹویٹس میں اس واقعے پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔  بھارتی مین سٹریم میڈیا نے بھی اس واقعے کو اچھالا۔ بھارتی میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر اکٹھے ہوئے مظاہرین نے گردوارے پر پتھراؤ بھی کیا۔

بھارتی صحافی برکھا دت نے اپنی ٹویٹ میں اس واقعے کوناقابل قبول اور ناقابل معافی قرار دیا اور اس پر فوری ایکشن کا مطالبہ کیا۔ پاکستان میں موجود انڈین ہائی کمشن نے بھی گردوارہ ننکانہ صاحب میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور احتجاج کی مزاحمت کی۔ نئی دہلی سے بھارتی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی اور پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر سکھوں کی معتبر عبادت گاہ اور سکھ کمیونٹی کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا ردعمل

اس واقعے کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ ترجمان کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ ننکانہ صاحب میں دو مسلمان گروہوں کے درمیان ایک ٹی سٹال پر معمولی ہاتھا پائی کا واقعہ پیش آیا، ضلعی انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ اس واقعے کو فرقہ وارانہ مسئلہ قرار دیناغلط ہے ۔ حکومت پاکستان امن و امان برقرار رکھنے اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گردوارے کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا، مقدس مقام کی بے حرمتی کرنے کے دعوے جھوٹے اور شرارت پر مبنی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرتارپور صاحب راہداری کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح کے اقلیتوں سے متعلق ویژن کا ایک مظہر ہے۔

پاکستان کے سکھ اس واقعے کو کیسے دیکھتے ہیں؟

کلیان سنگھ پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے پرفیسر رہ چکے ہیں۔ ننکانہ صاحب میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ننکانہ صاحب ایک ایسی جگہ ہے جہاں مذہبی ہم آہنگی کافی پائی جاتی ہے۔ ہر سال وہاں ہزاروں کی تعداد میں سکھ آتے ہیں مگر کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ان کے خیال میں یہ فساد کسی ذاتی رنجش کی بنیاد پر ہوا ہو گا، کمیونٹی لیول پر ایسا نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ ایسے واقعے بڑی جلد سیاسی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ اگر بھارت میں ایسا کچھ ہو جائے تو بغیر تحقیق کے ہم لوگ بھی بھڑک جاتے ہیں اسی طرح اس واقعے پر بھارت کا ردعمل بھی سامنے آرہا ہے۔‘ کلیان سنگھ کے مطابق ننکانہ صاحب میں سکھ اور مسلمان صدیوں سے رہ رہے ہیں اور وہ مل جل کر اس مسئلے کوحل کر لیں گے۔ ان کے خیال میں یہ مذہبی یا عدم برداشت کا مسئلہ نہیں بلکہ کسی کی جہالت ہو سکتی ہے یا انا یا چوہدراہٹ کے مسائل ہو سکتے ہیں ۔ ’سکھوں کے ساتھ خواہ وہ پاکستانی ہوں یا بھارتی، مسلمانوں کے اچھے تعلقات ہیں خاص طور پر کرتار پور راہداری کے بعد، اس لیے دونوں ممالک کو اس واقعے کومذہبی رنگ نہیں دیناچاہیے۔‘ کلیان سنگھ کہتے ہیں کہ بے شک وہاں موجود سکھ اس وقت خوف زدہ ہوں گے مگراس مسئلے کو جلدازجلد حل کرناچاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چئیرمین پنجابی سکھ سنگت گوپال سنگھ چاولہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کی کمیونٹی اس وقت خوف زدہ ہیں۔ ’جس وقت جس گروہ کا دل چاہے گا، ان کا اپنا کوئی مسئلہ ہو گا تو وہ گردوارے پر حملہ کر دیں گے۔ اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ گردوارہ جو گرونانک صاحب کا  جنم استھان ہے اور سکھ مذہب کی شروعات جہاں سے ہوئی ہے، یہ ہمارا مکہ اور کرتار پور صاحب ہمارا مدینہ ہے۔ ہمارے مکہ پر حملہ ہوا مگر ابھی تک نہ کوئی ایف آئی آر ہوئی ہے نہ ہی کوئی اور قانونی کارروائی ہوئی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان