ایٹمی حملے کی صورت میں بچنے کا طریقہ

ایٹمی حملے کے بعد اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے تو آپ غلطی پر ہیں

ایٹم بم سے بننے والا بادل

جوہری حملے کی صورت میں اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے تو آپ غلطی پر ہیں۔ جوہری تابکاری کے تباہ کن اثر کا اندازہ ناگاساکی اور ہیروشیما کی تصویریں انٹرنٹ پہ ڈھونڈے بغیر نہیں لگایا جا سکتا۔  

ایٹمی دھماکہ تباہی کی وہ مکمل اور انتہائی شکل ہے جس کے بعد اول تو کوئی جان دار یا بے جان چیز سلامت نہیں رہتی اور اگر کسی طرح بچ بھی جائے تو احتیاطی تدابیرکا یاد رہ جانا بہت مشکل سی بات ہے۔

نقصان کی شدت جاننے کے لیے پہلے چرنوبل کا واقعہ یاد کرتے ہیں جب بم دھماکہ بھی نہیں ہوا تھا اور ایٹمی پلانٹ میں خرابی پیدا ہوئی تھی۔

26 اپریل 1986 کو صبح صبح چرنوبل ایٹمی پلانٹ کے ریکٹر پر ایک تجربہ کیا جا رہا تھا۔ تجربے کے نتیجے میں وہاں ٹمپریچر زیادہ ہوگیا۔ بھاپ جمع ہوئی تو ریکٹر پہ دباؤ بڑھا اور وہ ایک دھماکے سے پھٹ کر اپنے ساتھ پلانٹ کی چھت بھی لے اڑا ۔ 30 افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

ایٹمی تابکاری چرنوبل کےآس پاس شہروں میں پھیل گئی۔ لوگ ابھی سو رہے تھے۔ کچھ دیر میں پلانٹ پہ آگ بھی لگ گئی۔ انتظامیہ نے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے آگ پر قابو پانے کے لیے ریت ڈالی مگر کام پھیلتا گیا۔ آخر اس دھماکے کے ڈیڑھ روز بعد آس پاس کے لوگوں کو شہر خالی کر دینے کا حکم دے دیا گیا۔ شہر خالی کرنے والے آج تک وہاں دوبارہ کبھی واپس نہیں جا سکے۔ ہوا کے ذریعے تابکاری اثرات والے ذرے یوکرین، بیلارس، روس اور دیگر آس پاس کے علاقوں کے علاوہ برطانیہ اور یورپ تک بھی پہنچے۔

ہزاروں کارکنوں کو حادثے کے مقام پر سے ملبہ ہٹانے کے لیے بھیجا گیا۔ انہوں نے تباہ شدہ پلانٹ کو ڈھانک کر تابکاری اثرات کم کرنے کی بھی کوشش کی مگر سب کچھ ناکام رہا۔ جن افراد نے ان تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لیا، بعد میں وہ بھی بیمار پڑ گئے۔

بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق چرنوبل حادثے کے بعد ریڈیائی اثرات سے چار ہزار لوگ کینسر کا شکار ہوئے۔ ماحولیاتی تحفظ کے ادارےگرین پِیس کی جانب سے 2006 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ ایک لاکھ لوگ اس حادثے سے متاثر ہوئے جن میں یوکرائن، روس اور بیلاروس کے شہری شامل ہیں۔

سوویت حکام نےایک طویل عرصے تک چرنوبل کے حادثے پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ریاستی ٹی وی کچھ اور بتاتے تھے لیکن کئی سو کلومیٹر دور دوسرے ملکوں کے اندر تابکاری کی پیمائش کرنے والے آلات کچھ اور بتا رہے تھے۔ بالآخر روسی حکام کو چرنوبل کے حادثے کی سنگینی تسلیم کرنا پڑی۔

سوویت حکام کے مطابق چرنوبل جوہری ریکٹر پھٹنے کے باعث ریکٹر پر 31 ہلاکتیں ہوئیں۔ عالمی ادارہ ِ صحت کا کہناہے کہ ملبہ ہٹانے والے افراد میں سےتقریبا بائیس سو جبکہ تابکاری پھیلنے کے سبب کینسر اور دیگر بیماریوں سے تقریبا چار ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔

تابکاری کے باعث سوویت حکام نے چرنوبل کے قریب 30 کلومیٹر کے علاقے کو انسانی آبادی کے لیے خطرناک قرار دیا جب کہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ علاقہ جوہری آلودگی کا شکار ہوا تھا۔ تو یہ اس جگہ کا قصہ تھا جہاں بم گرایا بھی نہیں گیا اور اتنی تباہی مچی۔  سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب اس صورت حال میں جب کہ ہیروشیما اور ناگاساکی سے کئی سو گنا زیادہ  طاقتور بم بنائے جا چکے ہیں، اب ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟

دنیا بھر میں کئی جگہ ایٹمی حملوں سے بچاؤ کے لیے پناہ گاہیں بنائی جاتی ہیں، انہیں فال آؤٹ شیلٹر کہا جاتا ہے۔ ریڈ کراس جیسے ادارے ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار رہتے ہیں۔  سب کچھ ہونے کے باوجود  CDC کے ماہرین صحت یہی کہتے ہیں کہ اگر جوہری حملہ ہوتا ہے تو کوئی بھی ادارہ فوری طور پر کوئی مدد نہیں کر پائے گا۔ کیوں کہ جوہری حملے ہماری تیاری سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔

جنگی حکمت عملی کے ماہرین کے مطابق اگر لوگوں کو اس طرح کے حملوں کے لیے پہلے سے ذہنی طور پر تیار کر لیا جائے تو بھاری نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ حالات سے بالکل انجان ہونے کی صورت میں نقصان زیادہ ہوگا۔

شمالی کوریا کی طرف سے شہریوں کی تربیت کے لیے چند ہدایات جاری کی گئیں جن کے مطابق شہریوں سے کہا گیا  کہ اگر کوئی تیزی سے بڑھتا ہوا آگ کا گولا یا تیز روشنی نظر آئے تو اس کی طرف نہ دیکھیں۔ یہ بینائی چھین سکتی ہے۔ جتنا جلدی ہو سکے خود کو کسی بند جگہ میں قید کر لیں۔ تابکاری میلوں دور تک پھیلتی ہے۔ اس لیے زیادہ دور جانے کے بجائے جہاں ہیں وہیں اپنے لیے کوئی بند جگہ تلاش کریں۔ ایٹمی اثرات سے بچنے کے لیے بہترین پناہ گاہ زیر زمین ہوتی ہے، گہرائی میں تابکار شعاعیں کم سے کم پہنچ پاتی ہیں۔

اس بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ جوہری تابکاری  کپڑوں تک میں اتر جانے والی ہوتی ہے۔ بہتر ہے کہ ایسی کسی بھی صورت میں جلد از جلد کپڑے بدل لیں اور جسم کو اچھی طرح صاف کر لیں۔ اتارے گئے کپڑوں کو کسی پلاسٹک کے بیگ میں بند کر کے انسانوں اور جانوروں سے جتنا دور ہو سکے اتنا دور رکھیں۔ جسم دھوتے وقت اسے رگڑنا نہیں چاہیے۔ اپنے کان، ناک اور آنکھوں کو نہایت نرمی اور احتیاط کے ساتھ  کسی کپڑے یا ٹشو سے صاف کریں۔

امریکہ اور جاپان میں جاری ہونے والی مختلف گائیڈ لائنز کے مطابق ایٹمی حملے کی صورت میں بچنے کے لیے بنائی گئی اپنی پناہ گاہ میں کم سے کم تین ہفتوں کے لیے درج ذیل سامان فراہم رکھیں؛
 ٹن پیک کھانا جس میں گوشت شامل نہ ہو بلکہ سبزیاں، پھل اور بینز وغیرہ ہوں، منرل واٹر کی بوتلیں، نہانے کے پانی کا وافر ذخیرہ، ایک ریڈیو کیوں کہ موبائل تابکاری کے پہلے جھٹکے کے بعد ناکارہ ہونے کا امکان ہے۔
کپڑوں کے کم از کم 2 سے 3 اضافی جوڑے، فرسٹ ایڈ کٹ، بیٹریاں یا بجلی کا متبادل انتظام جیسے کہ ٹارچ وغیرہ، اینٹی سیپٹک سپرے، امدادی ٹیموں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایک سیٹی، ڈسٹ ماسک اور ضرورت کی وہ چیزیں جو آپ سمجھیں کہ انہیں رکھنا بہتر ہو گا۔

ایٹمی حملے کے فوراً بعد زندہ بچ جانے کا پہلا اصول اپنے ہوش و حواس کو قابو اور دماغ کو حاضر رکھنا ہے۔ اگر آپ صحیح سلامت پناہ گاہ تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں جا کر  جتنا ممکن ہو کم سے کم کھائیں، اگر نیند آئے تو زیادہ وقت سو کر  گزاریں، ریڈیو سنتے رہیں اور باہر کے حالات سے باخبر رہیں۔  تابکاری اثرات کی شدت سے دھماکے کے بعد بچ جانے والوں  کو تیز بخار، سانس کی بندش یا الٹیاں ہو سکتی ہیں، ادویات کی فہرست میں اس حوالے سے دوائیں ضرور رکھیں۔

امدادی ٹیم کے آنے تک ہرگز باہر نکلنا سود مند نہیں ہو گا۔ ہنگامی کی صورت میں باہر نکلتے وقت جس قدر ممکن ہو تابکاری اثرات سے بچنے کے لیے منہ سر لپیٹ کر نکلا جائے۔

پاک بھارت ماحول سرحدوں پر جب بھی تناؤ کا شکار ہوتا ہےتو خاکم بدہن ایسے کسی بھی امکان کو بعید از قیاس نہیں سمجھا جا سکتا۔ تاہم امید یہی کی جاسکتی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس