ابھی جنگ کے بادل نہیں چھٹے

پانچ باتیں ایسی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کا خطرہ موجود ہے۔

پانچ باتیں اشارہ کر رہی ہیں کہ طوفان کے بادل ابھی بھی سر پر منڈلا رہے ہیں۔(اے ایف پی)

بظاہر القدس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران کی ’محتاط‘ جوابی کارروائی اور بعد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش سے خطے سے جنگ کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے، لیکن صورتِ حال اتنی نازک ہے فی الحال ایسا کوئی بھی دعویٰ قبل از وقت ہو گا۔

حملے کے بعد ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت کے انتقام کا معاملہ اب ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے ایران پیچھے ہٹ رہا ہے، جو سب فریقوں کے لیے اچھی بات ہے اور دنیا کے لیے بھی اچھی بات ہے۔‘

مزید حوصلہ افزا اشارہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کی جانب سے آیا جب انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اطلاعات ملی ہیں کہ ایران نے اپنے حمایت یافتہ عسکری گروہوں پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ٹھکانوں پر حملے نہ کریں۔

مائیک پینس کے اس بیان کی تائید عراق کے طاقتور مذہبی، سیاسی و عسکری رہنما مقتدیٰ الصدرکی جانب سے اس وقت ہوئی جب انہوں نے اپنے حلقۂ اثر کی مسلح تنظیموں سے کہا کہ وہ حملے نہ کریں۔ انہوں نے بدھ کے روز کہا کہ ’عراق کو لاحق بحران ٹل گیا ہے۔‘

تمام اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایران نے یہ حملے خاصا سوچ سمجھ کر کیے تاکہ ان سے کوئی جانی نقصان نہ ہوں۔ انہوں نے خاص طور پر چھاونیوں کے ایسے حصوں کو نشانہ بنایا جہاں انہیں معلوم تھا کہ کوئی نہیں ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید احتیاط عراقی حکومت کو وقت سے پہلے مطلع کر کے برتی گئی۔ عراقی حکومت نے فوراً امریکہ کو خبردار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ ایران نے سوئٹزرلینڈ کے ذریعے امریکہ کو حملے سے پیشگی آگاہ کر دیا تھا۔

اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ایرانی حملے کا مقصد امریکہ کو نقصان پہنچانا نہیں، بلکہ پیغام دینا تھا، اور اس پیغام کا ہدف امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے عوام بھی تھے۔

لیکن بظاہر پانچ باتیں اشارہ کر رہی ہیں کہ طوفان کے بادل ابھی بھی سر پر منڈلا رہے ہیں۔

1 ایران پر مزید پابندیاں

صدر ٹرمپ نے ایرانی جوابی کارروائی کا جواب نہ دینے کی بات تو کی ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایران پر مزید پابندیاں بھی لگانے کا بھی اعلان کر دیا اور کہا کہ ’یہ پابندیاں اس وقت تک نافذ رہیں گی جب تک ایران اپنا رویہ نہیں بدلتا۔‘

ایران پہلے ہی شدید پابندیوں کی زد میں ہے اور اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ مزید پابندیاں اسے دیوار سے لگانے کے مترادف ہوں گی۔

2 ایران کے ’نان سٹیٹ ایکٹر‘

عراق میں قائم عصائب الحق نامی ایک عسکری تنظیم کے سربراہ قیس الخذرعلی کے بیان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ خطرہ ابھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’ایران کا جواب آ چکا ہے، اب عراق کا جواب آنا باقی ہے۔‘

ایران کے حمایت یافتہ عسکری تنظیمیں پورے خطے میں پھیلی ہوئی ہیں اور خاص طور پر عراق، شام، لبنان، یمن میں ان کے مضبوط ٹھکانے موجود ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی نے بھی ایران کی آشیرباد سے یا خود اپنی مرضی سے امریکہ یا اس کی مفادات پر حملہ کیا تو وہ بھوسے کے ڈھیر میں چنگاری کا کام کر سکتا ہے۔

3 رہبرِ اعلیٰ کچھ اور کہہ رہے ہیں

ایک طرف تو ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے خلاف مزید فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی، لیکن ایران کی حقیقی طاقت رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای کے ہاتھوں میں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ایرانی حملے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا مناسب جواب نہیں ہیں۔

انہوں نے بدھ کے روز مذہبی شہر قم میں ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ سے بےدخل کرنا ایران کا اصل مقصد ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے امریکہ سے کسی قسم کے مذاکرات کو بھی خارج از امکان قرار دیا۔

4 ایٹمی معاہدے سے علیحدگی

اس کے علاوہ ایک اور بات یہ ہوئی ہے کہ ایران نے خود کو ایٹمی معاہدے سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ دوبارہ یورنیئم افزودہ کرنے کی کوششیں شروع کر دے گا۔ امریکہ اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کسی صورت میں یہ برداشت نہیں کریں گے۔

5 سائبر جنگ بھی جاری ہے

گولہ باردو کی جنگ کے علاوہ ایک اور میدان میں بھی ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں۔ جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ہیکروں نے امریکی ریاست اوکلاہوما کے شہر منی ایپلس کی بلدیہ کی ویب سائٹ کو مسخ کر کے وہاں جنرل سلیمانی کی تصویریں لگا دیں۔

اس کے علاوہ ایک سرکاری ادارے گورنمنٹ پبلشنگ آفس کی ویب سائٹ بھی ہیک کر کے اس پر صدر ٹرمپ کے منہ پر مکہ پڑنے کی تصویر چسپاں کی گئی۔

حالیہ برسوں میں ایران نے سائبر جنگ کے میدان میں خاصی ترقی کی ہے۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کے شعبۂ کمپیوٹر کے ڈائریکٹر کرسٹوفر کریبز نے اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’ایران کے پاس تباہ کن (سائبر) حملے کرنے کی صلاحیت اور رحجان موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی ہیکر نجی اور سرکاری دونوں طرح کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنا سکتے ہیں، بلکہ پورا نظام ہی جلا کر راکھ کر سکتے ہیں۔ ’وہ اپنی صلاحیت اپنے خطے میں پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔ وہ خاصے جارحانہ بھی ہیں۔‘

امریکہ کئی برس پہلے ہی ایک قانون منظور کر چکا ہے جس کی رو سے سائبر حملوں کو بھی ’اقدامِ جنگ‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ایرانی حکومت یا اس کے ’نان سٹیٹ ایکٹرز‘ نے امریکہ کے خلاف کوئی بڑی سائبر کارروائی کی تو اس کے اثرات بھی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا