ایران برطانوی سفیر کو گرفتار کرنے پر معافی مانگے: امریکہ

برطانوی سفیر کو تہران میں ایک یونیورسٹی کے باہر احتجاج کو منظم کرنے، مظاہرین کو اشتعال دلانے میں مبینہ کردار ادا کرنے پر کچھ گھنٹوں کے لیے گرفتار کیا گیا۔

تہران میں امیر کبیر یونیورسٹی کے سامنے طلبہ احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

برطانوی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ایرانی حکام نے برطانوی سفیر کو تہران میں ایک یونیورسٹی کے باہر احتجاج کے دوران کچھ دیر کے لیے گرفتار کر لیا۔

دی انڈپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے ایران کی جانب سے سفیر روب میکائر کی گرفتاری کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نے خبر دی کہ برطانوی سفیر کو رہائی سے قبل ایک گھنٹے سے زیادہ وقت کے لیے حراست میں رکھا گیا تھا۔

ایرانی حکام نے الزام لگایا تھا کہ برطانوی سفیر ان چند افراد میں شامل تھے، جنھیں مظاہرے کو منظم کرنے، اشتعال دلانے اور انتہا پسندانہ اقدامات کے لیے اکسانے جیسے جرائم کے شبے میں گرفتار کیا گیا۔

ایران کے اسلامی انقلابی گارڈز کے ساتھ روابط رکھنے والی نیوز ایجنسی تسنیم نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’انھیں (برطانوی سفیر کو) امیر کبیر یونیورسٹی کے سامنے مشکوک تحریک اور احتجاج کو منظم کرنے کے الزام میں حراست میں لینے کے چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ انھیں کل صبح وزارت خارجہ طلب کیا جائے گا۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ روب اُس تقریب میں شریک تھے جہاں یوکرینی طیارے کے حادثے کے شکار افراد کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی تھیں۔

تاہم یہ تقریب تیزی سے ایک مظاہرے میں بدل گئی جس کے بعد راب وہاں سے چلے گئے۔ انھیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ برطانوی سفارت خانے واپس جا رہے تھے، یہ واضح نہیں کہ انھیں کس فورس نے حراست میں رکھا تھا۔

ایرانی وزارت خارجہ کو کی گئی متعدد ہنگامی فون کالز کے بعد بالآخر انھیں رہا کردیا گیا اور واپس سفارت خانے واپس جانے کی اجازت دی گئی۔

برطانوی وزیر خارجہ راب نے اپنے ایک بیان میں کہا: ’تہران میں ہمارے سفیر کی کسی بنیاد یا وضاحت کے بغیر گرفتاری بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

’یہ ایرانی حکومت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ وہ (ایران) یا تو تمام سیاسی اور معاشی تنہائیوں کے ساتھ (عالمی برادری سے) بے دخل ہو سکتا ہے یا پھر تناؤ کو ختم کرنے اور سفارتی راستے پر آگے بڑھنے جیسے اقدامات اٹھا سکتا ہے۔‘

دوسری جانب امریکہ نے برطانوی سفیر کی گرفتاری کی بھرپور مذمت کی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مورگن اورٹاگس نے ہفتے کو ایک ٹویٹ میں کہا: ’ایران کے اس قدم سے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہوئی۔ ایرانی حکومت کی ایسی خلاف ورزیوں کی بدنام زمانہ تاریخ موجود ہے۔ ہم ایرانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر برطانیہ سے باضابطہ طور پر معافی مانگے اور تمام سفارت کاروں کے حقوق کا احترام کرے۔‘

دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران کی جانب سے یوکرینی طیارے کو میزائل سے مار گرانے کے اعتراف کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف ایرانی کریک ڈاؤن کی مذمت کی۔

ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو مظاہروں کی نگرانی اور رپورٹ کرنے کی اجازت دے۔

’میرا یہ پیغام ایران کی بہادرعوام، جو طویل عرصے سے تکالیف برداشت کر رہی ہے، کے لیے ہے کہ میں صدر بننے کے بعد سے آپ کے ساتھ کھڑا ہوں اور میری انتظامیہ آپ کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ ہم آپ کے مظاہروں کی قریب سے پیروی کر رہے ہیں اور آپ کی ہمت اور عزم سے متاثر ہیں۔‘

ٹرمپ نے اپنے دونوں پیغامات کو فارسی میں بھی ٹویٹ کیا۔

فارس نیوز ایجنسی کے مطابق امریکی صدر کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایرانی پولیس نے طلبہ کو حکومت مخالف نعرے بازی کرنے پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے منتشر کرنے کی کوشش کی۔

سینکڑوں طلبہ ہفتے کی شام تہران کی امیر کبیر یونیورسٹی میں یوکرینی طیارے کے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعزیت کے لیے جمع ہوئے تھے۔

اے ایف پی کے مطابق 176 ہلاک شدگان مسافروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہونے والے طلبہ کا اجتماع حکومت مخالف مظاہرے میں بدل گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا