پرویز مشرف کا مقدمہ غیرقانونی قرار، سزائے موت بھی معطل

لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دے دیا۔

خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا (اےایف پی)

لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دے دیا، اس کے ساتھ ہی خصوصی عدالت کی کارروائی بھی کالعدم ہوگئی۔

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے گذشتہ برس 17 دسمبر کو چھ سال تک چلنے والے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو دو ایک کی اکثریت سے سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے خلاف انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکیل کی درخواست پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس نے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق ریکارڈ طلب کیا تھا جو آج پیر کے روز پیش کیا گیا۔

گذشتہ سماعت پر سابق صدر پرویز مشرف کے وکلا نے دلائل دیے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے آج سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سنایا اور کریمنل لا سپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976 کی دفعہ نو کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ آرٹیکل چھ کے تحت ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جاسکتا۔

مختصر فیصلے میں عدالت نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنائی گئی سزا کو بھی کالعدم قرار دیا۔

عدالتی کارروائی:

وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان پیش ہوئے، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ 24 جون 2013 کو کابینہ اجلاس کے حوالے سے خصوصی عدالت کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا لیکن اس اجلاس کے ایجنڈے پر عدالت کی تشکیل نہیں تھی۔ ’یہ سچ ہے کہ خصوصی عدالت کا قیام کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوا تھا، کیونکہ پرویز مشرف کے خلاف کیس دائر کرنے کا معاملہ کبھی کابینہ ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں ہوا۔‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ آٹھ مئی 2018 کو خصوصی عدالت کے ایک جج کی تقرری کا معاملہ کابینہ میں زیر بحث آیا۔ 21 اکتوبر کو جسٹس یاور علی ریٹائر ہو گئے اور خصوصی عدالت پھر تحلیل ہوگئی لیکن وزارت قانون کی جانب سے دوبارہ جج تعینات ہونے پر خصوصی عدالت نے کام شروع کیا، تاہم ایف آئی اے نے پرویز مشرف کے خلاف انکوائری مکمل کی۔

وفاق کے وکیل کے مطابق ایف آئی اے کی 20 سے 25 افراد پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس نے انکوائری مکمل کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ان میں سے کتنے لوگ ٹرائل میں پیش ہوئے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صرف سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے،ایف آئی اے ٹیم کا کوئی رکن پیش نہیں ہوا، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ’پھر انکوائری کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ بات تو الزامات کی ہے اس کو ثابت کرنے کے لیے گواہان شامل ہیں، ہم ضمناً پوچھ رہے ہیں، جو لسٹ آپ نے لگائی ہے ان میں سے کتنے گواہ عدالت میں پیش ہوئے؟‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت نے سیکرٹری داخلہ کو شکایت درج کروانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ’آئین میں لکھا ہے کہ وزیراعظم، صدر مملکت کے نام پر کوئی بھی سمری تیار کرے گا، وزیرا عظم چاہے تو وزارت خود رکھ کر سمری بھجوا دے یا کابینہ سمری وزیراعظم کے ذریعے صدر کو بھجوائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے موقف اپنایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو نیا نوٹیفیکیشن جاری کرنا چاہیے تھا یا پرانے نوٹیفیکیشن کی تصدیق کرتی۔ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل چھ میں معطلی، اعانت اور معطل رکھنے کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔

اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ’ضیاء الحق نے کہا تھا کہ آئین کیا ہے؟ 12 صفحات پر مبنی کتاب ہے، اس کتاب کو کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینک دوں، یہ آئین توڑنا تھا، ایمرجنسی تو آئین میں شامل ہے، اگر ایسی صورت حال ہو جائے کہ حکومت ایمرجنسی لگا دے تو کیا اس حکومت کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلے گا؟ ایمرجنسی لگائی جائے گی تو پھر اس کا تعین ہوگا کہ کیا ایمرجنسی آئین کے مطابق لگی یا نہیں، سلسلہ چل گیا نا جس کو جو چیز مناسب لگی وہ وہی کرے گا۔‘ 

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے عدالت کے روبرو کہا کہ آئین کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے، آرٹیکل چھ میں آئین معطل رکھنے کا لفظ پارلیمنٹ نے شامل کیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا: ’تو پھر آئین سے انحراف کیسے ہو گیا؟ آپ نے تین لفظ شامل کرکے پورے آئین کی حیثیت کو بدل دیا، اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ایمرجنسی کو شامل رکھا ہوا ہے۔‘

اشتیاق احمد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، گورنر پنجاب، پھر چیف جسٹس پاکستان، پھر صدر مملکت کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے، خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے مذکورہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا، نئی قانون سازی کے بعد جرم کی سزا ماضی سے نہیں دی جا سکتی۔‘

جس پر جسٹس مسعود جہانگیر نے ریمارکس دیے: ’پھر ہم سمجھیں کہ جو پرویز مشرف کا موقف ہے وہی آپ کا موقف ہے؟‘ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا: ’سر میں تو ریکارڈ کے مطابق بتا رہا ہوں۔‘

لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی اپیل پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا، جو کچھ دیر بعد سنا دیا گیا۔ فیصلے کے تحت خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دے دی گئی، جس کے ساتھ ہی جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سزائے موت بھی کالعدم ہوگئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان