پاکستانی کمیونٹی کا علمی سفر

بارسلونا میں آنے والے پاکستانیوں نے صرف پیسہ بنانے پر توجہ نہیں رکھی، بلکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔

ڈاکٹر برکات مصطفیٰ ہاشمی (بائیں) اور بیرسٹر حسنات مصطفی ہاشمی (دائیں)

بارسلونا میں پاکستانیوں نے 2000 میں یہاں کی حکومت کی ہجرت پالیسی سے فائدہ اُٹھایا اور پھر2002 میں اُن کی اکثریت نے قانونی طور پر سکونت اختیار کی۔

یہ طبقہ زیادہ تر منڈی بہاء الدین اور گجرات کے لوگوں پر مشتمل تھا جنھوں نے کاغذات حاصل کیے۔ ظاہر ہے معاش کے علاوہ غرض کوئی اور ہونا ناممکنات کے تنگ مگر گہرے کنویں سے زیادہ کُچھ نہ تھا مگر پاکستانیوں نے گذشتہ 20 برسوں میں بارسلونا میں جس طرح اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ہر شعبۂ زندگی میں ہسپانوی اربابِ اختیار کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کرکے رہے، چاہے وہ سماجیات کا کوئی پہلو ہو یا سیاسیات کے ابواب، کاروبار ہیں یا مزدُوری۔ اس سب کچھ کے باوجود معاشرت اور انضمام پہ چھاپ مردانہ ہے۔ پاکستانیوں کے بچے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعات تک پہنچے اُن کے نام اُنگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ خواتین پاکستان سے آئیں اور یہاں آ کر اُن پر وہ تعلیمی محنت نہ ہو سکی جو ہو سکتی تھی مگر پھر بھی یہ جو پاکستانی کمیونٹی کی ٹوپی میں عزت کا پر ہے وہ اِن خواتین ہی کا لگایا ہوا ہے یعنی

سرِ آئینہ میرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے

شکیل ملک تو کہتے اور مانتے ہیں کہ اُن کے پیچھے ہی نہیں بلکہ بچوں کے پیچھے بھی اُن کی رفیقِ حیات ہیں۔ اُن کے تین بچے ہیں، سب سے بڑی بیٹی ڈاکٹر کومل ملک انٹرنل میڈیسن میں سپیشلائزیشن کر رہی ہیں۔ منجھلا بیٹا انجینیئر ہے اور ایک بڑی بین الاقوامی فرم میں کام کرتا ہے اور چھوٹا بیٹا انجینیئرنگ کے داؤ پیچ سیکھ رہا ہے۔ ملک صاحب خود ٹیلی کمیونیکیشن کے ساتھ منسلک ہیں اور کبھی مُوڈ خراب ہو تو اپنی بس کمپنی کے ساتھ مراکش وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خود زمیندارہ کالج گجرات سے فارغ التحصیل ہیں۔ ہسپانوی شہریت کے حامل ہیں مگر عبور اُن کو پاکستانی تاریخ کی باریکیوں پر ہے۔ ملک صاحب کا کہنا ہے کہ بچوں کو بس تعلیم دے دیں، بنگلے کاریں وہ خود خرید لیں گے۔

کچھ احباب نے ثابت کیا کہ صرف پیسہ بنانا مفروضہ ہی ہے۔ انہوں نے محنت مزدوری بھی کی اور بچوں کو تعلیم بھی دلوائی۔ مثلاً شمس العارفین پاکستانی نژاد ہسپانوی شہری ہیں۔ اب ڈونر کباب شاپس اور کال سنٹرز اُن کا کاروبار ہے۔ تعلیم اُن کی انجینیئرنگ ہے پاکستان سے۔ پٹھان ہیں، اُن کی بڑی بیٹی ہیں ڈاکٹر رافع شمس ہیں جو بارسلونا کے ضلع سانتا کلوما دے گرامینیت میں تعینات ہیں۔ منجھلا بیٹا ڈاکٹر محمد شفیع شمس ہے جبکہ بیٹا نمبر تین جامعہ والینسیا میں دندانسازی کی تعلیم مکمل کر رہا ہے۔

سماجیات شمس العارفین کا مشغلہ ہے اور وہ بارسلونا کے نواحی علاقے مارتوریل کے ایک گاؤں میسکیفا میں رہتے ہیں۔ اُن کے ہاں تعلیم کا موسم سدا بہار ہے۔ علم دوست ایسے ہیں کہ یار دوستوں کے بچوں کواگر ہسپانوی جامعات میں داخلہ نہیں ملا تو ’کوئی بات نہیں یارا‘ کہہ کر ترقی پذیر یورپی ممالک میں داخلہ کروا آتے ہیں۔ نظام تعلیم کی قبولیت پلان بلونیہ کی وجہ سے یورپ بھر میں یکساں ہے چنانچہ اُن کے لگائے پودے اب خوب پھل پھول رہے ہیں۔

غلام مُصطفےٰ ہاشمی بھی  پاکستانی نژاد ہسپانوی ہیں۔ پاکستان میں ان کا تعلق جہلم سے ہے۔ اُن کے بڑے بیٹے ڈاکٹر برکات مصطفیٰ ہاشمی ہیں جو ماہر امراض چشم کی منازل طے کر رہے ہیں اور اُن سے چھوٹے بیٹے حسنات مُصطفیٰ ہاشمی بارسلونا کے واحد منجھے ہوئے با عمل اور باقاعدہ وکیل ہیں۔ وکیل صاحب پاکستانی قونصل خانہ میں جمعے کے روز دو گھنٹہ پاکستانیوں کو مفت مشورے دیتے ہیں اور قانونی معاملات میں رہنمائی فرماتے ہیں۔ یہ خدمت وہ قونصل جنرل آف پاکستان کی خواہش اور درخواست پر انجام دے رہے ہیں۔

وکیل بابو کی امن کے لیے کوششیں بھی قابل ستائش ہیں۔ منہاج یوتھ ونگ کے پلیٹ فارم سے فرنٹ فُٹ پہ بین المذاہب ہم آہنگی پرخدمات انجام دیتے ہیں۔ کاتالان اور ہسپانوی زبانوں پر چونکہ عبور حاصل ہے اس لیے بات بھی ٹھوک بجا کر کرتے ہیں۔

بارسلونا میں مقیم ان خاندانوں نے نہ صرف اس بات کا رد عملی طور پر پیش کیا جو ہمارے ہاں رائج رہا ہے کہ پیسہ بناؤ اور پاکستان میں حالات ٹھیک کرو۔ ان خاندانوں نے اپنے بچوں کو ہسپانوی اور کاتالان زبانوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچایا۔ اب ان کا یہ کردار مشعل راہ ہے ان سب کے لیے جو سمجھتے ہیں کہ قومیں صدیوں میں بنتی ہیں مگر اپنی نسلوں کو بیس پچیس سال لگا کر اُنہیں آئندہ سو سال کےلیے تیار کرنے سے کتراتے ہیں (جاری ہے)۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی