سائنس دانوں نے ’زندہ روبوٹ‘ تیار کر لیے

تحقیق کاروں کی ایک ٹیم نے مینڈک کے جنین کے خلیوں کو لے کر انہیں ایک ایسی مشین میں تبدیل کردیا جسے اپنی مرضی کے مطابق کام لینے کے لیے پروگرام کیا جا سکتا ہے۔

یہ نئے روبوٹ ماہرینِ حیاتیات کی جانب سے سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے تخلیق کیے گئے ہیں۔ انہیں بنانے والی ٹیم کے مطابق اب یہ مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں (سکرین گریب)

سائنس دانوں کے مطابق انھوں نے ’زندہ روبوٹ‘ ایجاد کر لیے ہیں۔ یہ بالکل نئی مخلوق زندہ خلیوں کے ذریعے بنائی گئی ہے۔

تحقیق کاروں کی ایک ٹیم کے مطابق انھوں نے مینڈک کے جنین (embryos) کے خلیوں کو لے کر انہیں ایک ایسی مشین میں تبدیل کردیا جسے اپنی مرضی کے مطابق کام لینے کے لیے پروگرام کیا جا سکتا ہے۔ 

تحقیقی ٹیم نے ایک مقالے میں لکھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ انسانوں نے ایک ’مکمل حیاتیاتی مشین بالکل ابتدا سے تخلیق کی ہو۔‘

یہ تخلیق سائنس دانوں کے لیے یہ ممکن کرے گی کہ وہ خوردبینی روبوٹوں (زینو بوٹس) کو مریض کے جسم میں ادویات پہنچانے یا سمندر میں سے آلودگی ختم کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نقصان کی صورت میں یہ روبوٹ خود کو مکمل طور پر صحت یاب بھی کر سکتے ہیں۔

ورمونٹ یونیوسٹی سے تعلق رکھنے والے جوشوا بون گارڈ نے اس تحقیق میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’یہ جیتی جاگتی زندہ مشینیں ہیں۔ یہ روایتی روبوٹ نہیں ہیں۔ یہ ایک مصنوعی شاہکار ہیں، ایک جیتا جاگتا پروگرامیبل جاندار۔‘

یہ نئے روبوٹ ماہرینِ حیاتیات کی جانب سے سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے تخلیق کیے گئے ہیں۔ انہیں بنانے والی ٹیم کے مطابق اب یہ مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔

ٹفٹس یونیورسٹی جہاں یہ روبوٹ تیار کیے گئے، وہاں کے سینٹر فار ری جنریٹو اینڈ ڈیویلپمنٹل بائیولوجی کے ڈائریکٹر تحقیق کار مائیکل لیون کا کہنا ہے: ’ہم ان زندہ روبوٹوں اور مشینوں کے کئی فائدہ مند استعمال سوچ سکتے ہیں۔ مثلاً زہریلا یا تابکار مواد تلاش کرنا، سمندروں میں سے پلاسٹک کے چھوٹے ٹکڑے چننا، خون کی رگوں میں سے جما مواد نکالنا، وغیرہ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیم کی جانب سے اس بڑی کامیابی کا اعلان ’پروسیڈنگز آف دا نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ میں شائع ہونے والے مقالے میں کیا گیا۔

انسانیت اپنے آغاز سے ہی جانداروں کے کردار کے حوالے سے مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ حالیہ برسوں میں جینیاتی ردوبدل اور اس کو منظم انداز سے استعمال کر کے مصنوعی جانداروں کو تخلیق کیا گیا ہے۔ لیکن تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے ایک مکمل حیاتیاتی مشین کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا گیا ہو۔

نئی زندگی کی تخلیق کے لیے سائنس دانوں نے سپر کمپیوٹر کے استعمال سے ہزاروں نئے ممکنہ ڈیزائنوں کی تیاری شروع کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مصنوعی ارتقا کا طریقہ اختیار کیا جس میں کمپیوٹر کو ہدف دیا گیا کہ وہ بہترین ڈیزائن کا تعین کرے۔

اگر اسے کہا گیا کہ وہ ایک جاندار تخلیق کرے جو مثال کے طور پر ایک سمت میں حرکت کر سکے، تو کمپیوٹر نے ہزاروں ممکنہ طریقوں کا تجربہ کیا جن میں خلیے مختلف شکلوں اور طریقوں سے آپس میں یوں جوڑے جائیں کہ وہ حرکت کرنے کے قابل ہو سکے۔ اس طرح سے سائنس دانوں کے پاس اس مصنوعی جاندار کا حتمی تصوراتی ڈیزائن آ گیا۔

تحقیق کے دوسرے حصے میں ایک مائیکروسرجن اور باقی محققین نے ان ڈیزائنوں کو اصل زندگی میں بدلنا تھا۔ انھوں نے افریقی مینڈک کے ایمبریوز سے سٹیم سیلز لے کر انھیں کمپیوٹر کے طے کردہ ڈیزائن کے مطابق  تیار کیا۔

جس کا مطلب تھا کہ سائنس دانوں نے اصل متنوع مواد کو استعمال کرتے ہوئے نئی زندگی کو تخلیق کیا جو پہلے کبھی ممکن نہیں ہو سکا۔

اس تمام عمل کے بعد ان خلیوں نے ایک ساتھ اسی طرح سے کام کرنا شروع کر دیا جیسے کمپیوٹر نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یہ روبوٹ خود بخود حرکت کر سکتے تھے، اور چند ہفتے بعد یہ منظم انداز میں حرکت کر کے اپنے ماحول کا جائزہ لینے کے قابل ہو گئے۔  

تحقیق کاروں نے کہا کہ اس کے بعد ان جانداروں نے چھوٹی چھوٹی گولیوں کو دھکیلنے، خودکار طریقے سے اپنے آپ کو منظم کرنے اور دوسروں کے ساتھ مربوط انداز میں کام کرنا شروع کر دیا۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ننھے روبوٹوں کے اس سے بھی زیادہ پیچیدہ روپ بھی تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔ کمپیوٹر ماڈلز کے مطابق ان روبوٹوں میں جیب بھی رکھی جا سکتی ہے جس میں یہ کوئی  چیز اٹھاا سکتے ہیں۔ سے جسم میں کوئی دوا پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندہ مواد سے ایسے روبوٹوں کی تخلیق ٹیکنالوجی کے استعمال میں ڈرامائی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

زینو بوٹ اپنی نقلیں تیار کر سکتے ہیں اور جب یہ مرتے ہیں تو مکمل طور پر گل سڑ جاتے ہیں، (یعنی ماحول پر بوجھ نہیں بنتے)۔

 صرف یہی نہیں، سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ زندہ روبوٹ اپنی مرمت خود کر سکتے ہیں۔ روایتی مادوں کے برعکس یہ روبوٹ دو برابر حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں اور ان کے نصف حصے خود کو تندرست کرتے ہوئے دوبارہ آپس میں جڑ سکتے ہیں۔

سائنس دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ ارتقا ایسے غیر متوقع نتائج کا باعث بھی بن سکتا ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔ اگر یہ نظام کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہو گیا تو شاید انسانوں کے لیے ممکن نہ رہے کہ وہ ان کے طرز عمل کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کر سکیں۔

مائیکل لیون نے ایک بیان میں کہا، ’اگر انسانیت نے مستقبل میں محفوظ رہنا ہے تو ہمیں ان پیچیدہ خصوصیات کو سمجھنا ہو گا جو کسی طرح سادہ اصولوں سے جنم لے سکتی ہیں۔ یہ تحقیق ان معاملوں میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جن کے بارے میں لوگ خوفزدہ ہیں اور وہ ہیں غیر متوقع نتائج۔‘

ان کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق ایسے نظاموں کو سمجھنے میں اہم قدم ہے۔ زندہ نظام اس بات کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں کہ انہیں کیا رویہ اختیار کرنا ہے، اس کا علم ہمیں ان کے نتائج کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد دے گا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس