پنجاب: ن لیگ، پی پی پی میں تلخیاں ’سنجیدہ نہیں‘

کیا پنجاب میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی کشیدگی عوامی مسائل کے حل کے لیے ہے یا محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ؟

بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز 25 جولائی، 2022 کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے لیے موجود ہیں (اے ایف پی)

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی سطح پر اتحادی ہیں لیکن پنجاب میں حالیہ دنوں میں ان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس بار اختلافات کی بنیادی وجہ صوبے میں سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال بنی ہے۔

پیپلز پارٹی کا مطالبہ ہے کہ متاثرینِ سیلاب کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی امداد فراہم کی جائے۔

تاہم وزیر اعلیٰ مریم نواز ایک سے زائد بار کہہ چکی ہیں کہ اس پروگرام کے ذریعے دی جانے والی رقم ناکافی ہے۔

اس تنازعے سے قبل بھی پنجاب کے گورنر سلیم حیدر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ ہو چکا ہے جس کے بعد پاور شیئرنگ فارمولے پر اعلیٰ سطحی مذاکرات کیے گئے تھے۔

اب سیلاب کی صورت حال میں ایک بار پھر دونوں اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان دے رہی ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے پانی کی تقسیم پر بھی اعتراض اٹھایا اور دعویٰ کیا کہ صوبے کو اس کے حصے کا پورا پانی نہیں دیا جا رہا، جس کی وجہ نہروں کی تعمیر کا رک جانا ہے۔

اس کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ اور ندیم افضل چن نے لاہور میں پریس کانفرنسز کے دوران پنجاب حکومت کی کارکردگی پر تنقید کی۔

صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اس کا ردعمل سندھ حکومت پر تنقید کی صورت میں دیا۔

کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب بدھ کو پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے قومی اسمبلی میں پنجاب حکومت کو نشانہ بنایا۔

اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک ساتھ بٹھانے کی کوشش بھی کی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے کہا کہ ’ہم نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کی بلکہ صوبے کے حقیقی مسائل کی نشاندہی کی، جس پر وزیر اعلیٰ برا مان گئیں۔

’ہمارا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں تاکہ نچلی سطح پر اختیارات منتقل ہوں اور عوام کو مشکلات کے وقت بروقت مدد مل سکے۔‘

ان کے مطابق ’پنجاب حکومت تشہیر پر زیادہ اور مسائل کے حل پر کم توجہ دے رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب مسلم لیگ ن پنجاب کے پارلیمانی رہنما امجد علی جاوید نے کہا ’جب بھی عوامی مسائل اٹھتے ہیں، پیپلز پارٹی کو عوام کی فکر یاد آتی ہے۔

’حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے چند حلقوں کے علاوہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی صوبائی قیادت نظر آئی۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ن کی حکومت اور مشینری ہر جگہ موجود رہی۔‘

ندیم افضل چن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پنجاب میں گندم کی خریداری کے معاملے پر کسانوں کو نظر انداز کیا گیا اور دوسرے صوبوں کو بھی گندم نہیں دی گئی۔

’سیلاب متاثرین کے نقصان کا سروے بھی غیر شفاف انداز میں کیا جا رہا ہے تاکہ اصل نقصانات چھپائے جا سکیں۔‘

اس پر ردعمل دیتے ہوئے امجد جاوید نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا طرز حکمرانی مختلف ہے۔ ہم شفاف گورننس کے قائل ہیں جبکہ پیپلز پارٹی شاہانہ طرز پر کام چلانا چاہتی ہے۔

’سیلاب جیسے بحران میں بھی انہوں نے حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے سیاست کو ترجیح دی۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی نظریاتی طور پر ہمیشہ سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔

’موجودہ وقت میں مصلحتاً دونوں جماعتیں ایک ساتھ ہیں، اس لیے پیپلز پارٹی کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سہارا لے کر اور کبھی بیانات کے ذریعے پنجاب میں اپنی سیاسی موجودگی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اختلافات کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں بھی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گی۔ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو وہ فوری طور پر کسی حکومت کے بس کی بات نہیں۔‘

سلمان غنی کے بقول ’چاروں صوبوں میں کچھ اچھا ہے تو خرابیاں اور مسائل بھی برقرار ہیں، لیکن ہر بار کی طرح موجودہ سیٹ اپ میں اس طرح کی تلخیوں کی سنجیدہ کوئی حیثیت نہیں۔ ن لیگ کو وفاق میں پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل رہے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست