سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ افراد کو امدادی سامان فراہم کرنے سے روکنے کی حزب اختلاف کی شکایت پر حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ اس نے ’فوڈ اتھارٹی سے چیک‘ کرانے کی شرط کھانے کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے لگائی ہے۔
پنجاب ان دنوں شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ گذشتہ کئی دنوں سے لاہور، قصور، جھنگ، سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ میں بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔
اب پانی کا رخ اگرچہ جنوبی پنجاب کے اضلاع ملتان، بہاولپور، لودھراں، مظفر گڑھ کی جانب ہے وہاں بھی درجنوں دیہات زیر آب آچکے ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ حکومت سیاسی مخالفین اور این جی اوز کو سیلاب زدگان کی مدد سے روک رہی ہے۔
اس حوالے سے گجرات اور جھنگ انتظامیہ نے باقائدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیے ہیں۔
اس معاملے پر ترجمان پنجاب حکومت عظمی بخاری نے وضاحت کی کہ کسی کو امدادی سرگرمیوں سے نہیں روکا بلکہ متاثرین کو معیاری کھانے کی فراہمی کے لیے صرف انتظامیہ اور ’فوڈ اتھارٹی سے چیک‘کرانے کا کہا گیا ہے۔
اگست کے آخر میں سب سے پہلے انڈیا کی جانب سے پانی چھوڑے جانے اور طوفانی بارشوں کی وجہ سے سب سے پہلے سیالکوٹ اور ناروال میں سیلابی صورت حال پیدا ہوئی اس کے بعد پانی بڑھتا گیا اور کئی مقامات پر ہیڈ ورکس اور شہری آبادیوں کو بچانے کے لیے بند توڑ کر دیہی علاقوں میں پانی چھوڑا گیا۔
اس کے نتیجے میں لاکھوں متاثرین کو گھر بار چھوڑ کر امدادی کیمپوں یا خشک مقامات پر منتقل کیا گیا۔
پاکستان فوج سمیت سرکاری اداروں کی جانب سے ریسکیو آپریشن کیے گئے جو اب بھی جاری ہیں۔
اس کے ساتھ ہی دوسرے مرحلے میں متاثرین کی رہائش اور کھانے پینے کے انتظام کا عمل شروع ہوگیا۔ اس دوران پنجاب میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے سوشل و مقامی میڈیا پر امدادی سامان پر وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی تصاویر بنانے پر تنقید کی۔
29 اگست کو ڈپٹی کمشنر جھنگ کی جانب سے باقائدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر گجرات نے بھی دو ستمبر کو الگ نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’اطلاعات کے مطابق کچھ نامعلوم، غیر مجاز،غیر سرکاری افراد، قابل ذکر شخصیات اور این جی اوز متاثرہ علاقوں میں بغیر پڑتال کی گئی خوراک تقسیم کر رہے ہیں۔ جو عوامی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اس لیے انسانی زندگیوں کو کسی بھی خطرے سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ حفاظتی اقدامات لینا لازمی ہے۔‘
نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ ’بغیر اجازت کھانا تقسیم کرنے پر دفعہ 144کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس لیےحکم دیا جاتا ہے کہ قابل استعمال اشیا، پانی، کھانا وغیرہ صرف پنجاب فوڈ اتھارٹی/ضلع صحت اتھارٹی یا متعلقہ سرکاری اہلکاروں سے تحریری اجازت کے بعد متاثرہ علاقوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ کوئی بھی پکا/کچا کھانا، کھانے کے پیکج، قابل استعمال اشیا، پینے کا پانی، دودھ یا کوئی کھانے کی چیز پنجاب فوڈ اتھارٹی یاضلعی صحت اتھارٹی سے تحریری اجازت کے بغیر تقسیم نہیں کی جائے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ترجمان ڈپٹی کمشنر آفس جھنگ ریاض مارتھ نے بتایا کہ ’ہماری اور گجرات انتطامیہ کی جانب سے یہ نوٹیفکیشن جاری کیے گئے تھے۔ لیکن متاثرین کی امداد کا کام تسلی بخش ہونے کی وجہ سے آج تین ستمبر کو جھنگ انتظامیہ کی جانب سے کیا گیا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے۔ ان حکمناموں کو مقصد کسی کو امدادی سرگرمیوں سے روکنا نہیں بلکہ بہتر انداز میں متاثرین کی مدد یقینی بنانا تھا۔‘
سیاسی جماعتوں کا الزام اور حکومتی وضاحت
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرکزی سیکریٹری اطلاعات تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میں جھنگ سے ایم این اے منتخب ہوا ہوں یہ ہمارا شہر ہے یہاں سیلاب آیا تو لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے کشتیاں چلائیں۔ پھر کیمپ لگائے انہیں رہائش دینے کے لیے وہاں بستر کھانا پینا سب فراہم کیا جارہا تھا۔ لیکن حکومت نے ہمارے کیمپ اکھاڑ دیے کھانا ضبط کر لیا اور کشتیوں کے ملاح بھی مریم نواز کے دورے کے موقع پر کئی گھنٹے حراست میں رکھے گئے۔‘
شیخ وقاص اکرم کے بقول ’حکومت مصیبت کی اس گھڑی میں بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے۔ اصل مسئلہ کھانے کا سامان چیک کرنے کا نہیں بلکہ مریم نواز کی تصاویر کے بغیر امداد کرنے کا ہے۔ حکومتی خزانے سے آنے والی ہر چیز پر مریم نواز کی تصاویر لگا کر تشہیر کی جارہی ہے۔ لوگ خود کہ رہے ہیں یہ کیسے خدمت ہے جس میں سیاست پہلی ترجیح ہے۔‘
مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے بھی پنجاب کے مختلف سیلاب زدہ اضلاع میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
ترجمان مرکزی مسلم لیگ تابش قیوم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سیلاب میں ہر متاثر ہونے والا سب کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اپنی سطح پر امداد کر رہی ہے لیکن اس آفت میں اکیلی حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ لہذا ہم بھی اپنا قومی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ہم نے دیکھا حکومت نے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دی ہیں۔ کہیں کہا جاتا ہے کھانا چیک کرائیں کہیں سامان چیک کیا جارہا ہے۔ حالانکہ کوئی سیاسی جماعت ہو یا این جی او کوئی بھی مضر صحت یا خراب کھانا متاثرین میں کیسے تقسیم کرسکتا ہے؟‘
تابش کے بقول، ’سیلاب زدہ علاقوں میں وزیر اعلی یا دیگر وزرا کی آمد پر پروٹوکول کے لیے سکیورٹی کے نام پر امدادی سرگرمیاں کرنے سے روکا جارہا ہے۔ ہم تو خود انتطامیہ کو اعتماد میں لے کر علاقے تقسیم کر کے امدادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود جھنگ اور گجرات میں جو حکم نامے جاری کیے گئے وہ حیران کن ہیں۔ اس قسم کی کارروائیوں سے تقسیم بڑھتی ہے اور کام متاثر ہوتا ہے۔‘
ان شکایات پر ردعمل معلوم کرنے کے لیے جب وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے بدھ کو جاری بیان میں کہا کہ ’پنجاب حکومت نے کسی نجی تنظیم یا عام افراد کو سیلاب متاثرین میں کھانا تقسیم کرنے سے نہیں روکا۔ پنجاب حکومت نے صرف اتنا کہا ہے کھانا تقسیم کرنے سے پہلے ضلعی انتظامیہ اور فوڈ اتھارٹی سے کھانا چیک کروا لیا جائے کیونکہ بعض جگہوں پر پرائیویٹ افراد کی جانب سے غیر معیاری کھانا تقسیم کرنے کی شکایت آئیں۔‘