قائداعظم کے جوتے کیوں چھُپانے پڑے؟

سندھ اسمبلی کی نئی عمارت میں سپیکر کی کرسی کے پیچھے قائد اعظم کے ایک بڑے پورٹریٹ میں ہنگامی طور پر تبدیلی کیوں کرانا پڑی؟

قیام پاکستان کی قرارداد پاس کرنے والی سندھ اسمبلی کی تاریخی عمارت کو  صوبائی  حکومت نے 2014 میں میوزیم کا درجہ دیتے ہوئے اسمبلی کی نئی عمارت تعمیر کروائی۔

ساڑھے چار ارب روپے لاگت سے تعمیر کی گئی سندھ اسمبلی کی نئی عمارت میں قرآنی آیات کی کیلی گرافی، صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعار، خوبصورت فانوس،  نیا فرنیچر، اور اسمبلی اراکین کے لیے آرام دہ کرسیوں کے ساتھ ساتھ  سپیکر اسمبلی کی کرسی کے پیچھے قائد اعظم محمد علی جناح کے بڑے سائز کا پورٹریٹ بھی بنوایا گیا۔

 جناح کا یہ پورٹریٹ چھ فٹ چوڑا اور10 فٹ لمبا ہے، جو سندھ اسمبلی کی نئی بلڈنگ میں سپیکر کی کرسی کے عین پیچھے لگایا گیا۔

اس پورٹریٹ میں قائداعظم دھاریوں والے کالے کوٹ، پینٹ، سفید شرٹ اور لال ٹائی کے ساتھ صوفے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے ایک گول میز رکھا ہوا ہے جس پر نیلے رنگ کے گُلدان میں سفید پھول اور ساتھ میں ایک کھلی کتاب  ہے،جس پر ایک پنکھ رکھا ہوا ہے۔

اس پورٹریٹ کو بنانے والے کراچی کے معروف مصور مہتاب علی کے مطابق ابتدائی پورٹریٹ میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے قائداعظم کے جوتے نظر آتے تھے جنھیں بعد میں میز بناکر چھپا دیا گیا۔

مہتاب علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا :’ اسمبلی کی نئی عمارت میں قائداعظم کا پورٹریٹ بنانے کے لیے کئی مصوروں سے ان کے کام کے نمونے لیے گئے مگر بعد میں اس پورٹریٹ بنانے کا کام مجھے سونپا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ ایک مشکل  کام تھا کیوں کہ یہ رینج سے دور اور نظر کی سطح سے اوپر بنانا تھا لہٰذا میں نے سیڑھی پر چڑھ کر یا بینچ پر کھڑے ہوکر اسے بنایا ،جو ایک دشوار کام تھا مگر میرے لیے یہ ایک اعزاز سے کم نہیں۔‘

پورٹریٹ میں جوتوں کی کہانی بتاتے ہوئے انھوں نے کہا : ’ پورٹریٹ کا کام مکمل ہونے کے بعد جب اسےسپیکر کی کُرسی کے پیچھے آویزاں کردیا گیا، تو میں ان دنوں اسلام آباد میں تھا اور مجھے اسمبلی سے فون آیا کہ  آپ جلدی سے آئیں کیونکہ  اس پورٹریٹ میں جو قائداعظم ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر  جوتے پہنے بیٹھے ہیں وہ جوتے کاٹنے ہیں۔

’پہلے تو مجھے بالکل سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔میں جب واپس آیا اور پوچھا کہ کیا  معاملہ  ہے تو مجھے کہا گیا کہ تصویر میں نظر آنے والے قائداعظم  کے جوتے عین سپیکر کے سر پر آرہے ہیں اور یہ سیٹ ان کو اچھا نہیں لگ رہا لہٰذا آپ  جوتے  کاٹ دیں اور بالکل ختم کردیں۔

’جب میں نے پورٹریٹ کو بغور دیکھا تو میں ان سے کہا کہ ہاں قائداعظم کے جوتے کاٹنے پڑیں گے اس لیے نہیں کہ وہ کسی کے سر پر آرہے ہیں بلکہ اس لیے کہ پورٹریٹ کے دونوں جانب کے ستونوں پر ہونے والی مقدس آیات کی کیلی گرافی نیچے تک جارہی ہے اور یہ مناسب نہیں۔

’پھر میں نے قائد اعظم کے سامنے ایک گول میز پر کتاب اور گلدان بنادیا۔ اس طرح جوتے چھُپ گئے اور جب لوگوں نے دیکھا تو پوچھا کہ جوتے کہاں غائب ہوگئے تو میں نے کہا کہ وہ میز کے پیچھے چھُپ گئے ہیں۔‘

پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیص ہے مگر آپ نے ان کا پورٹریٹ پینٹ شرٹ میں کیوں بنایا؟ اس سوال کے جواب میں مہتاب علی نے کہا کہ قائداعظم  کرتا شلوار یا  شیروانی وغیرہ بھی پہنتے تھے لیکن سندھ حکومت نے خصوصی طور پر کہا تھا کہ  پورٹریٹ پینٹ شرٹ میں بنایا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا