کیا خیبر پختونخوا میں واقعی آٹے کا بحران پیدا ہو چکا ہے؟

گندم کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے مئی میں وفاقی وزیر خوراک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار میں بتایا گیا تھا کہ 2019  میں حکومت گندم کی پیداوار کا جو ٹارگٹ رکھا تھا وہ بارشوں کی وجہ سے پورا نہیں ہو سکا۔

فلور ملز ایسوسی ایشن کے صدر محمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا  کہ افغانستان کو جو آٹا دیا گیا تھا وہ ضرورت سے زائد تھا اور زیادہ تر 2016  اور 2017  کا سٹاک پڑا تھا تو وفاقی حکومت نے اس کو افغانستان دینے کا فیصلہ کیا۔(ٹوئٹر)

پاکستان میں گذشتہ کئی دنوں سے آٹے کے بحران کی خبریں گردش میں ہیں اور خیبر پختونخوا سمیت دیگر صوبوں سے بھی ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ ملک میں آٹے کی دستیابی کا مسئلہ درپیش ہے۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی ملک میں آٹے کا بحران موجود ہے؟ کیا گندم کا سرکاری سٹاک ختم ہونے والا ہے؟ اور خیبر پختونخوا میں کیا صورت حال ہے۔

جب سے ملک میں آٹے کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے، وفاقی حکومت اس کا ذمہ دار سند ھ حکومت کو ٹھہرا رہی ہے۔ سیالکوٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اطلاعات و نشریات کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ سندھ حکومت نے وقت پر سٹاک سے گندم نہیں اٹھائی جس کی وجہ سے آٹے کا بحران پیدا ہوگیا۔

انھوں نے کہا: ’سندھ حکومت کی کوتاہی کی وجہ سے وفاقی حکومت نے سٹریٹیجک سٹاک سے چار لاکھ ٹن گندم سندھ حکومت کو دی تاکہ بحران ختم ہو۔ ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق کی وجہ سے قیمتیں بڑھیں کیوں کہ سندھ حکومت نے گندم بروقت ملوں کو نہیں پہنچائی۔‘

گذشتہ مہینے وفاقی وزیر برائے خوراک خسرو بختیار نے بھی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سندھ حکومت نے پورا سال سٹاک سے گندم نہیں اٹھائی اور پہلی مرتبہ اسے چار لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن گندم دینا پڑی جس کی وجہ سے آٹے کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔

اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے  ایک حکومتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ  سندھ حکومت نے گندم نہیں خریدی جس کی وجہ سے وفاقی حکومت نے سندھ کو کوٹے سے زیادہ گندم فراہم کی جس کے بعد پنجاب نے خیبر پختونخوا کو گندم کی سپلائی روک دی کیوں کہ پنجاب کو خود اپنی ضرورت پوری کرنی تھی۔

اہلکار نے بتایا کہ ہمارے پاس اپریل کے آخر تک کا سٹاک موجود ہے اور حکومت نے ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے کے لیے آٹے کی تقسیم کے لیے طریقہ کار وضع کیا ہے اور اب ضلعی انتظامیہ کے زیر نگرانی ٹرکوں کو ڈسٹری بیوشن پوائنٹس پر پہنچا کر وہاں آتا تقسیم کیا جاتا ہے۔

’پیدوار کی کمی بھی بحران کی وجہ بنی‘

خیبر پختونخوا فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی محمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آٹے کے مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ملک میں گندم کی کم پیداوار ہے کیوں کہ اکتوبر کے بعد کے بارشوں نے پنجاب اور سندھ میں فصلوں کو کافی نقصان پہنچایا۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے اضلاع جیسا کہ لیہ، ڈیرہ غازی خان، بھکر اور فتح پور میں بارشوں نے  گندم کے فصلوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا اور یہی بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کسی قسم کا بحران نہیں ہے لیکن مسئلہ ضرور ہے جو حل ہو جائے گا کیوں کہ پنجاب نے آٹے کی ترسیل کل یعنی پیر سے دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

محمد اقبال نے بتایا کہ پہلے فلور ملوں کو دو ہزار میٹرک ٹن گندم صوبائی حکومت اور آٹھ  ہزار میٹرک ٹن پنجاب کی طرف سے دی جاتی تھی اور اب اس مسئلے کے بعد چار ہزار میٹرک ٹن صوبائی اور چھ ہزار مٹیرک ٹن پنجاب سے دی جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’یہاں روزانہ کی بنیاد پر صوبے اور پنجاب کی جانب سے 10 ہزار میٹرک ٹن گندم ملوں کو سپلائی کیا جاتی ہے جس سے صوبے کی ضرورت پوری ہوتی ہے ۔ فلورز ملیں تین سے چار گھنٹے چلائی جاتی ہیں اور پھر آٹے کو مارکیٹ میں سپلائی کیاجاتا ہے۔‘

گندم کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے مئی میں وفاقی وزیر خوراک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار میں بتایا گیا تھا کہ 2019  میں حکومت گندم کی پیداوار کا جو ٹارگٹ رکھا تھا وہ بارشوں کی وجہ سے پورا نہیں ہو سکا۔

وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی صاحبزادہ محبوب سلطان نے اس حوالے سے پچھلے سال مئی میں بتایا تھا کہ حکومت نے 25.5  ملین ٹن  تک گندم کی پیداوار کا اندازہ لگایا تھا لیکن  اس میں 15  لاکھ ٹن  کمی آئی ہے جس کی بنیادی وجہ بارشوں سے فصل کو پہنچنے والا نقصان تھا۔

 تاہم  انہوں نے بتایا  کہ حکومت کے پاس پہلے سے 30 لاکھ ٹن گندم سٹاک میں موجود ہے تو اس سے ملک کی25.8  ملین ٹن کی ضرورت پوری ہو جائے گی۔

اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ صوبے میں کسی قسم کا بحران نہیں ہے اور پنجاب سے اس حوالے سے بات ہوگئی ہے جو پیر سے دوبارہ گندم کی ترسیل شروع کر دے گا جس کے بعد آٹا اوپن مارکیٹ میں  بھی دستیاب ہوگا۔

خیبر پختونخوا کا زیادہ تر انحصار وفاق اور پنجاب پر

صوبائی وزیر اطلاعات کے جانب سے دیے گئے اعداو شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں سالانہ 46 لاکھ ٹن آٹا استعمال کیا جاتا ہے جس میں 11 لاکھ ٹن تک گندم کی صوبائی پیداوار ہے  جب کہ  30  لاکھ ٹن پنجاب کے اوپن مارکیٹ سے اور پانچ لاکھ مٹیرک ٹن تک  پاکستان ایگریکلچر سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن(پاسکو) سے لی جاتی ہے۔ پاسکو ایک وفاقی ادارہ ہے جو گندم ذخیرہ کرتا ہے اور ہر صوبے کو ضرورت کے مطابق فراہم کرتا ہے۔

شوکت یوسفزئی کے مطابق رواں سال  پاسکو کی جانب سے چار لاکھ 50  ہزار میٹرک ٹن گندم خیبر پختونخوا کو فراہم کی جانی ہے جس میں سے آدھی فراہم کر دی گئی ہے جب کہ باقی بھی جلد کر دی جائے گی۔ صوبائی حکومت کی جانب سے ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم پاسکو کی جانب سے فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

ان سارے اعداو شمار کی کو دیکھا جائے تو صوبائی حکومت کے پاس گندم کا ایک لاکھ 26  ہزار میٹرک ٹن سٹاک پہلے سے موجود تھا اور چار لاکھ 50  ہزار میٹرک ٹن رواں موسم میں پاسکو سے خریدی گئی جب کہ اس کے بعد بھی پاسکو سے ایک لاکھ میٹرک ٹن  خریدی گئی ہے اس طرح مجموعی طور پر چھ لاکھ 26 ہزار میٹرک ٹن گندم لی گئی۔

اب اگر دیکھا جائے تو صوبائی حکومت کے پاس چھ لاکھ 26  ہزار میٹرک ٹن گندم موجود ہے اور صوبے میں روزانہ کی ضرورت 10  ہزار میٹرک ٹن ہے۔ ٹوٹل کو اگر 10  ہزار پر تقسیم کریں تو صوبے میں 62  دنوں یعنی تقریبا 20  مارچ تک کا سٹاک موجود ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ کوئی بحرانی صورت حال پیدا نہیں ہو سکتی۔

افغانستان کو آٹا کیوں دیا گیا؟

اس حوالے سے فلور ملز ایسوسی ایشن کے صدر محمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا  کہ افغانستان کو جو آٹا دیا گیا تھا وہ ضرورت سے زائد تھا اور زیادہ تر 2016  اور 2017  کا سٹاک پڑا تھا تو وفاقی حکومت نے اس کو افغانستان دینے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں گندم کی کمی نہیں تھی کیوں کہ پاسکو کے پاس جو سر پلس گندم پڑی تھی وہ مل مالکان بھی لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

قیمتوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ملز سے اگر کوئی براہ راست لینا چاہتا ہے تو 20  کلو آٹے کی تھیلے کی قیمت  786  روپے رکھی گئی ہے  جب کہ پرچون کے حساب سے اسی تھیلے کی قیمت  808  روپے ہے۔

’گندم کی فراہمی بحال‘

دوسری جانب وزیر خوراک خسرو بختیار نے کہا ہے کہ ملک میں آٹے کی مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم کے وافر ذخائر دستیاب ہیں۔

اسلام آباد میں اتوار کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں اور مقامی منڈیوں میں آٹے کے مصنوعی بحران میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا پختہ عزم ظاہر کیا۔

وفاقی وزیرنے کہا کہ گندم اور آٹے کے موجودہ بحران کی متعدد وجوہات ہیں جن میں کراچی میں ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال شامل ہے جس سے سندھ کی مقامی منڈیوں میں گندم کی فراہمی متاثر ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ گندم کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے درمیان گندم کی منتقلی پر پابندی سے بھی مقامی منڈیوں میں گندم کی قلت پیدا ہوئی۔

 انہوں نے کہا کہ دونوں بڑی وجوہات دورکردی گئیں ہیں اور گندم کی فراہمی بحال کر دی گئی ہے جس سے اس کی طلب اور رسد کے درمیان فرق ختم ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی منڈیوں میں صورت حال معمول پر آگئی ہے اور آئندہ چند روز میں گندم کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔

خسرو بختیار نے کہا کہ مقامی منڈیوں میں گندم کی فراہمی پر نظر رکھنے کے لیے خصوصی ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان