کھیل دلچسپ مرحلے میں؟

وزیر اعظم کے پاس واحد باعزت راستہ ایک آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی نئے، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔ ملک کو درپیش موجودہ مسائل کا مقابلہ ایک مانگے تانگے کی بنائی ہوئی مجبور حکومت کے بس کی بات نہیں۔

وزیر اعظم کی اپنی ہی جماعت کے وزیر انہیں خطوط کے ذریعے پنجاب حکومت کی ناقص قیادت اور کارکردگی کی طرف توجہ دلا رہے ہیں جو کہ وزیر اعظم کے انتخاب پر بھی بےاعتمادی کا کھلم کھلا اظہار ہے (اے ایف پی فائل)

وفاقی حکومت پر ایک نظر دوڑائیں تو آپس میں ایک دست و گریبان ٹولے کی مانند لگتی ہے جسے ملک کے اقتصادی، سماجی، سیاسی یا خارجہ معاملات سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ اس معاملے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں کہ رانا ثنا اللہ کو مبینہ ہیروئین کے کیس میں کس طرح اندر بند کیا جا سکتا ہے۔ کابینہ کا ہفتہ وار اجلاس ہم وطنوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے اہم مسئلے پر غور و خوض کی بجائے بظاہر سیاسی مخالفین کو چت کرنے کی نت نئی تدابیر کی تلاش میں مصروف نظر آتا ہے۔

وفاقی وزرا کی سیاسی سوجھ بوجھ کا یہ عالم ہے کہ ایک وفاقی وزیر ٹی وی پروگرام میں فوجی بوٹ ساتھ لے جاتے ہیں۔ انہیں اس بات کا قطعاً احساس نہیں کہ وہ خود ایک منتخب نمائندے ہیں اور اس حرکت سے نہ صرف جمہوری اداروں بلکہ عسکری ادارے کی بھی توہین کر رہے ہیں۔ کیا کسی جمہوری معاشرے میں وفاقی وزیر سے ایسی نازیبا حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے؟ وزیر اعظم موصوف کو کابینہ سے نکالنے کی بجائے ان پر دو ہفتوں کے لیے ٹی وی پروگرام میں شرکت پر پابندی لگا کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔

سونے پر سہاگہ ایک اور وفاقی وزیر سماجی تقریب میں ایک صحافی کو تھپڑ رسید کر دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ کی قابلیت وعلمیت کا یہ عالم ہے کہ انہیں مارکیٹ میں ٹماٹر 17 روپے کلو ملتے ہیں۔

یہ کہنا نامناسب نہ ہو گا کہ اس تمام صورت حال کی ذمہ داری قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نے شروع سے ہی اس طرح کی قیادت مہیا کی جو بظاہر ان حرکات کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ وزیر اعظم حکومت میں سیاسی سنجیدگی لانے اور اہم مسائل پر توجہ دینے کی بجائے بیشتر اوقات حزب اختلاف کے رہنماؤں کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنے عہدہ کا احترام کیے بغیر اشتعال انگیز زبان استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ انہیں شاید احساس ہی نہیں کہ وہ اب اپوزیشن رہنما نہیں رہے بلکہ حقیقتاً وزیر اعظم بنا دیے گئے ہیں۔

انہی وجوہات کی بنا پر امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اگر خارجہ پالیسی کے سنجیدہ اہم معاملات کے بارے میں پاکستان میں کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ وزیر اعظم یا وزیر خارجہ سے رابطہ نہیں کرتے بلکہ آرمی چیف سے فون پر بات کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کوالالمپور نہیں جاتے اور سیاسی قیادت کی صلاحیتوں اور خودداری کے نئے معیار طے کرتے ہیں۔

ملک کی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے وزیر اعظم کی شاندار دیانت داری اور ایمانداری کے چرچے ایک منظم منصوبے کے تحت کیے گئے۔ انہیں عدالت عظمیٰ نے بھی آسانی سے صادق اور امین ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی نے فارن فنڈنگ کیس کی الیکشن کمیشن میں سماعت میں جان بوجھ کر روڑے اٹکائے۔ اگر پی ٹی آئی صاف اور شفاف ہے اور اس کی قیادت سند یافتہ دیانتدار اور ایمان داری کا پیکر ہے تو تقریباً پچھلے پانچ سالوں سے اس کیس کی سماعت میں کیوں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وزیر اعظم اس مسئلے میں احتساب سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے ان کی اپوزیشن کے خلاف احتساب کی مہم پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اپنوں کو احتساب سے بالا رکھ کر وہ بظاہر ایمان داری کے اونچے پیڈسٹل سے، جہاں وہ بقول خود براجمان ہیں، نیچے آ گئے ہیں۔

اقتصادی میدان میں بھی وزیر اعظم کی سمجھ بوجھ اتنی ہے جتنی کے سیاسی یا خارجہ پالیسی میں۔ وہ بظاہر اقتصادی بہتری چاہتے ہیں لیکن ان کے اقدامات اور مشیروں کے انتخاب سے قطعی ظاہر نہیں ہو رہا کہ وہ اقتصادیات کو سمجھتے ہیں یا وہ ملک کو اقتصادی طور پر بہتر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں کسی ناعاقبت اندیش ماہر اقتصادیات نے یہ باور کرا دیا ہے کہ درآمدات ہمارے تمام اقتصادی مسائل کی اصل جڑ ہیں اور ان پر پابندیوں سے سارے اقتصادی مسائل ختم ہو جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ درآمدات پر پابندیوں سے نہ صرف محاصل میں کمی آئی ہے بلکہ صنعت کا پہیہ بھی رکنے کے قریب آ گیا ہے۔ اب انہیں صرف غریب عوام ہی محصولات کا واحد ذریعہ نظر آ رہے ہیں۔ اور تواتر کے ساتھ بجلی، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ان کی زندگی کو مشکل بنایا جا رہا ہے۔ متوسط طبقے کو تیزی سے غربت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور غریبوں کو مزید غریب بنایا جا رہا ہے لیکن نیرو بانسری بجا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ اداروں کی مکمل حمایت کے باوجود ایک مخلوط حکومت نہیں چل پا رہی۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں ناراض ہو رہی ہیں اور حکومت پر مختلف الزامات لگا رہی ہیں جن میں تازہ ترین الزام کرپشن اور نوکریاں بیچنے کا ہے۔ وزیر اعظم کی اپنی ہی جماعت کے وزیر انہیں خطوط کے ذریعے پنجاب حکومت کی ناقص قیادت اور کارکردگی کی طرف توجہ دلا رہے ہیں جو کہ وزیر اعظم کے انتخاب پر بھی بےاعتمادی کا کھلم کھلا اظہار ہے۔

بزدار حکومت کی نااہلی اب ایک لوک داستان کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے لیکن کپتان کی نظر میں بزدار ایک معجزاتی انسان ہیں۔ اس طرح کی سیاسی کم فہمی اور ناسمجھی خیبر پختونخوا میں بھی نظر آتی ہے جہاں کے وزیر اعلیٰ کو تو اب بزدار پلس کے لقب سے نواز دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کو مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتی کارکردگی شاندار نظر آتی ہے اور وہ اپنی کابینہ میں شامل لوگوں کو اس کی مناسب تشہیر نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

بیوروکریسی پر بھی کسی قسم کا کنٹرول نظر نہیں آتا۔ نیب کی دہشت کی وجہ سے بیوروکریسی نے کام کرنا تقریباً بند ہی کر دیا ہے۔ ان مخدوش معاشی اور سیاسی حالات میں اتحادی اپنی آپشنز کے بارے میں غور کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ ق نے تو واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پر غور نہ کیا گیا اور گورننس کے معاملات پر توجہ نہ دی گئی تو ایک ہفتے میں دھماکہ ہو سکتا ہے۔ اگر پنجاب میں کوئی سیاسی دھماکہ ہوا جو پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے تو شاید پھر مرکز میں بھی حکومت قائم نہ رہ سکے۔

اس سیاسی اور معاشی انتشار کو ختم کرنے کا وزیر اعظم کے پاس ایک ہی قابل عمل راستہ بچا ہے اور وہ ہے نئے انتخابات کا راستہ ہے۔ 2018 کےانتخابات کسی طور پر بھی شفاف نہیں قرار دیے جا سکتے۔ اس پر نہ صرف اپوزیشن جماعتیں معترض رہی ہیں اور واویلا کرتی رہی ہیں بلکہ بین الاقوامی مبصرین نے بھی کھل کر اپنے شکوک کا اظہار کیا تھا۔ جس طریقے سے الیکشن کمیشن نے انتخابات کا انتظام کیا اور جس طرح جان بوجھ کر RTS نظام کو ناکام کیا گیا، اس نے انتخابی عمل پر سنجیدہ سوال اٹھا دیے تھے۔ اداروں کا انتخابات سے پہلے کا عمل اور انتخابات کے دوران کردار نے بھی انتخابات کے نتائج کو مشکوک کر دیا تھا۔ انتخابات کے بعد جس طریقے سے حکومت بنی یا بنوائی گئی اور جس طرح اپوزیشن کو دق کیا گیا یہ سب ایک طے شدہ منصوبہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

وزیر اعظم کے پاس واحد باعزت راستہ ایک آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی نئے، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔ ملک کو درپیش موجودہ مسائل کا مقابلہ ایک مانگے تانگے کی بنائی ہوئی مجبور حکومت کے بس کی بات نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ