پیمرا ویب ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بھی قابو پانے کی تیاریوں میں

اکثر ملکی و غیر ملکی ادارے اور تنظیمیں پیمرا کی ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کی سروسز کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز کی سختی سے مخالفت کر رہی ہیں اور اسے آزادی رائے اور میڈیا کی آزادی پر مزید قدغن لگانے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔

پاکستان میں زیادہ دیکھے جانے والے ویب ٹیلی ویژنز پر کھانا پکانے، طنز و مزاح، سیاسی تبصرے اور سیاحت جیسے موضوعات پر ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں۔(پکسابے)

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ملک میں انٹرنیٹ پر موجود ویب ٹی وی اور اوور دا ٹاپ (او ٹی ٹی) سروسز، مثلاً نیٹ فلکس، ہُولُو اور ایمازون پرائم، کو اپنے دائرہ کار میں لانے کے غرض سے عوامی مشاورتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس سلسلے میں  پیمرا نے ایک کنسلٹیشن پیپر تیار کیا ہے جس کے ذریعے پاکستان کے شہریوں، حکومتی و غیر حکومتی سمیت نجی اداروں، سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں اور اراکین پارلیمان سے مشورہ لیا جا رہا ہے۔

پیمرا کے اس اقدام کے بعد ملک بھر میں یہ موضوع زیر بحث ہے۔ اکثر ملکی و غیر ملکی ادارے اور تنظیمیں پیمرا کی ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی سروسز کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز کی سختی سے مخالفت کر رہی ہیں اور اسے آزادی رائے اور میڈیا کی آزادی پر مزید قدغن لگانے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔

رواں عشرے کے دوران انٹرنیٹ پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے ویب ٹی وی چینلز اور او ٹی ٹی کی بھر مار دیکھنے میں آئی ہے۔

اکثر کھلاڑی، فنکار، صحافی اور دوسرے پروفیشنلز اپنے چینلز چلا رہے ہیں۔

کسی خاص شعبے سے تعلق نہ رکھنے والے لوگ بھی انٹرنیٹ کی مدد سے مختلف موضوعات پر ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں زیادہ دیکھے جانے والے ویب ٹیلی ویژنز پر کھانا پکانے، طنز و مزاح، سیاسی تبصرے اور سیاحت جیسے موضوعات پر ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ملک کے تقریباً تمام نجی ٹی وی چینلز بھی اپنی نشریات انٹرنیٹ پر اپنے ویب ٹی وی کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔

تاہم ابھی ایسے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ پاکستان سے کتنے ویب ٹی وی یا او ٹی ٹی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔

پیمرا کے سینئیر اہلکار وکیل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ابھی ہمارے پاس ایسے اعدادو شمار موجود نہیں ہیں کہ کتنے او ٹی ٹی یا ویب ٹی وی پاکستانی شہری چلا رہے ہیں۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ ویب ٹی وی بہت زیادہ ہیں جب کہ او ٹی ٹی محض چند ایک ہیں۔

پیمرا کا کیس کیا ہے؟

کنسلٹیشن پیپر میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کی پاکستان میں شروعات اور موجودہ وقت میں نوعیت، کوریج اور اہمیت پر بحث کے علاوہ انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کنسلٹیشن پیپر میں تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی ریاستی کنٹرول سے آزاد ہیں۔

تاہم اس سلسلے میں چند ایک ملکوں میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر جزوی پابندیوں کا ذکر کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب ان دو خدمات کا ریاستی کنٹرول میں ہونا کیوں اور کتنا ضروری ہے۔

کنسلٹیشن پیپر میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پیمرا کے کنٹرول میں نہ ہونے کے باعث ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہیں اور اکثر میڈیا کے لیے موجود ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر موجود ان دو ذرائع ابلاغ پر ریاستی کنٹرول کی ضرورت کے حق میں مزید دلائل دیتے ہوئے کنسلٹیشن پیپر میں بیان کیا گیا ہے کہ ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی اشتہارات بھی حاصل کرتے ہیں جو پیمرا کے کنٹرول میں چلنے والے ٹیلی ویژن چینلز کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔

پیمرا نے ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر بھاری فیسیں عائد کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے اور اس سلسلے میں او ٹی ٹی سروسز اور نان نیوز ویب ٹی وی کے لیے پچاس پچاس لاکھ اور نیوز و کرنٹ افئیرز ویب ٹی وی کے لیے ایک کروڑ روپے لائسنس فیس تجویز کی گئی ہے جب کہ سالانہ فیس اس کے علاوہ ہوگی۔

کنسلٹیشن پیپر میں ایک سوال نامہ بھی شامل کیا گیا ہے جس کے جوابات پاکستانی شہریوں اور اداروں سے 14 فروری تک طلب کیے گیے ہیں۔

وکیل خان نے بتایا کہ عوام کی جانب سے جوابات کی روشنی میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کو ریگولیٹ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ردعمل

رواں ماہ میں جاری ہونے والے پیمرا کے کنسلٹیشن پیپر کے خلاف ملک اور بیرون ملک سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

صحافتی تنظیموں، سول سوسائٹی، میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں نے پیمرا کی اس تجویز کو رد کرتے ہوئے ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر ریاستی کنٹرول کو ہر طرح سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔

پیمرا کی اس تجویز کی مخالفت کرنے والوں میں صحافی، وکلا، میڈیا کارکنان، انسانی حقوق کارکنان، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت، ڈیجیٹل رائٹس اور انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے غیر حکومتی ادارے شامل ہیں۔

پاکستانی سول سوسائٹی کی جن تنظیموں نے پیمرا کی اس تجویز کی مخالفت کی ہے ان میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والا فرانسیسی ادارہ رپورٹرز سانز فرنٹیئرز (آر ایس ایف)، ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن، فریڈم نیٹ ورک، انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ)، بولو بھی وغیرہ شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تنظیموں اور اداروں نے پیمرا کی ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کی تجویز کے خلاف عوامی مشاورت شروع کی ہے جس میں پاکستانی عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود ان دو خدمات کا ریاستی کنٹرول سے آزاد ہونا کیوں کر ضروری ہے۔

ایک بیان میں ان تنظیموں اور اداروں نے پیمرا کی اس تجویز پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزاد میڈیا پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا: اس اقدام کا واضح مقصد نظر آتا ہے کہ حکومت ہمارے ڈیجیٹل حقوق اور سائبر سپیس کو ہائی جیک کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا مارکیٹ کو مسخ اور محدود کرنے کی مذموم کوششیں کر رہی ہے۔

بیان میں پاکستان کی عوام سے استدعا کی گئی کہ پیمرا کے سوال نامے کا بالکل بھی جواب جمع نہ کروایا جائے کیوں کہ ایسا کرنے سے پیمرا کے اس مشاورتی عمل کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی اور انہیں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے جواز ہاتھ آجائے گا۔

ان تنظیموں نے یہ الزام بھی لگایا کہ پیمرا نے عوام کے لیے تو ایک قسم کا کنسلٹیشن پیپر جاری کیا ہے جب کہ اراکین پارلیمان اور پارلیمانی کمیٹیوں کو الگ تجاویز پیش کی ہیں جو زیادہ سخت اور بے رحمانہ ہیں۔

اس سے ملتا جلتا الزام فرانسیسی صحافتی تنظیم آر ایس ایف کی جانب سے لگایا گیا ہے۔ آر ایس ایف کی پریس ریلیز کے مطابق: ’متناسب سنسرشپ کو منظم کرنے کے لیے متوازی اور بہت زیادہ سخت تجویز وفاقی حکومت کی ایجنسیوں کو پھیلائی جارہی ہے۔‘

تاہم پیمرا کے نمائندے وکیل خان نے ایسی تمام اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی پارلیمانی کمیٹی یا پارلیمنٹیرینز کو الگ تجاویز پیش نہیں کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کی ویب سائٹ پر موجود کنسلٹیشن پیپر ہی وہ واحد دستاویز ہے جس پر سب کی رائے طلب کی گئی ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ’کیبل ٹی وی‘، اور انٹرنیٹ کی خدمات مہیا کرنے والی کمپنی نیاٹیل نے بھی پیمرا کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا: ’انٹرنیٹ کے ٹریفک میں ویڈیو مواد 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ اور انٹرنیٹ کی مقبولیت انٹرنیٹ کے مفت ، کھلے اور غیر منضبط مواد میں مضمر ہے۔ ایسے اقدامات سے پورا انٹر نیٹ گھٹن کا شکار ہو جائے گا۔‘

ویب ٹی وی کیا ہے؟

لاطینی امریکہ کی ایک بڑی سٹریمنگ کمپنی جے ایم وی ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ پر چھپنے والے ایک بلاگ میں ویب ٹی وی کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے: ویب ٹی وی ایک ایسا ڈیجیٹل آلہ ہے جو کام تو روایتی ٹیلی ویژن چینل کی طرح کرتا ہے تاہم اس تک رسائی صرف انٹرنیٹ کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ اس پر دکھائے جانے والے پروگرام صرف ڈیجیٹل فارمیٹ میں ہی تیار کیے جاتے ہیں۔

ویب ٹی وی پر پہلے سے ریکارڈ شدہ پروگرام یا براہ راست نشریات بھی دکھائی جا سکتی ہیں اور دونوں کو ضرورت کے مطابق اکٹھا بھی استعمال یا نشر کیا جا سکتا ہے۔

پیمرا کے پیش کردہ ڈرافٹ میں ویب ٹی وی کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے: ویب ٹی وی سے مراد بلا معاوضہ یا سبسکریپشن فیس کی ادائیگی پر انٹرنیٹ کے ذریعے عوام کو دکھانے کے لیے براہ راست یا ریکارڈ شدہ مواد کی نشریات ہے۔

او ٹی ٹی کیا ہے؟

امریکی ٹیلیفون کمپنی ایم ڈی ٹی سی اوور دا ٹاپ (او ٹی ٹی) کی تعریف ان الفاظ میں کرتی ہے: او ٹی ٹی خدمات سے مراد کوئی بھی ایسی ویڈیو یا سٹریمنگ میڈیا ہے جس کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کر کے فلمیں یا ٹی وی شوز دیکھے جا سکتے ہیں۔ مشہور او ٹی ٹی خدمات مہیا کرنے والوں میں نیٹ فلیکس، ایمازون اور ہُولُو شامل ہیں۔

او ٹی ٹی خدمات مہیا کرنے والوں کی عموماً اپنی ویب سائٹ، ایپلیکیشنز یا ویب پیجز ہوتے ہیں جہاں استعمال کنندہ سبسکرائب کرتے ہیں اور لاگ اِن کر کے ہی مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

پیمرا نے او ٹی ٹی کی تعریف کچھ یوں کی: او ٹی ٹی سے مراد بلا معاوضہ یا سبسکرپشن فیس کی ادائیگی پر ایسے مواد کی خدمات ہیں جو انٹرنیٹ پر قابل رسائی ہو۔ جس تک کسی بھی جگہ پر نجی یا عوامی انٹرنیٹ پر کسی بھی طرح سے مختلف قسم کے آلات استعمال کر کے  رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان