’بریگزٹ پاکستان کی خصوصی تجارتی حیثیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے‘

گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے مطابق یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کو برطانوی ارکان کی حمایت حاصل تھی، مگر اب برطانیہ کی علیحدگی کے بعد پاکستان کو دوسرے یورپی ممالک سے روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔

گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا یورپ چھوڑنا یورپی یونین میں پاکستان کی خصوصی تجارتی حیثیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ 2014-2013 میں پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس درجہ ملنے میں یورپی پارلیمان میں برطانیہ کے 37 اراکین کی حمایت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس درجے کی تجدید کے لیے یورپی پارلیمنٹ میں لابنگ جاری ہے تاہم اب جب برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر رہا ہے تو پاکستان اس حمایت سے محروم ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ برطانیہ 31 جنوری یعنی آج باضابطہ طور پر یورپی یونین سے علیحدہ ہو رہا ہے، جسے بریگزٹ کا نام بھی دیا گیا ہے۔

پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2014-2013 میں ملا تھا، جس میں پھر 2018 میں مزید دو سال کے لیے تجدید کر دی گئی۔ اس درجے میں مزید توسیع حاصل کرنے کے سلسلے میں گورنر چوہدری محمد سرور، جو ماضی میں برطانوی پارلیمان کے رکن بھی رہ چکے ہیں، نے گذشتہ سال دسمبر میں یورپی ممالک کا طویل دورہ بھی کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب جب یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کو برطانوی اراکین کی حمایت حاصل نہیں ہو گی تو جی ایس پی پلس درجے کی تجدید کے لیے دوبارہ سے حکمت عملی بنانا ہوگی اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بیک ڈور چینلز کے استعمال کی پالیسی بنائی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گورنر نے کہا کہ پاکستان کو اپنے سفارت خانوں اور اراکین اسمبلی اور سینیٹرز کے ذریعے یورپی یونین میں شامل ممالک تک اپنا پیغام پہنچانا چاہیے تاکہ انہیں کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارتی شہریت کے متنازع بل کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس درجے میں بھی تجدید مل سکے۔

ان کے بقول ’یورپی یونین کے رکن ممالک کو بتانے کی ضرورت ہے کہ بھارت خطے میں کس طرح تباہی اور بدامنی پھیلانے کا موجب بن رہا ہے، اور یہ بھی کہ پاکستان نے امن قائم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے، دہشت گردی میں اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھایا اور ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں دوسرے ممالک کے اراکین سے تعلقات بڑھانے ہوں گے، اپنے ایم ان اے اور سینیٹرز کو ان مملک میں بھیجنا ہوگا تاکہ وہ پاکستان کا موقف بیان کر سکیں۔‘

گورنر پنجاب نے کہا کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس درجے سے ہر سال تین ارب ڈالر جبکہ پانچ سال میں 15 ارب ڈالر سے زیادہ کا فائدہ حاصل ہوا ہے۔

انہوں نے کہا: ’یورپی منڈیوں تک رسائی کے لیے یہ درجہ برقرار رکھنے کی تجدید معاشی طور پر بھی ناگزیر ہے اور عالمی تعلقات کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔‘

جی ایس پی پلس کیا ہے؟

یورپی یونین کی جانب سے ترقی پذیر ممالک  کو ترجیحی بنیادوں پر جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرینس (جی ایس پی) سٹیٹس دیا جاتا ہے جس کا مقصد غربت میں کمی، پائیدار ترقی اور اچھی حکمرانی کے فروغ میں تعاون کرنا ہے۔ اس میں ترقی پذیر ممالک کو یورپی ممالک میں تجارتی رسائی کے لیے خصوصی رعایت دی جاتی ہے جس میں اضافی ڈیوٹی فری برآمدات کرنا بھی شامل ہے۔

یہ سہولت لینے کے خواہش مند ممالک پر طے شدہ شرائط پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔

یہ سٹیٹس یوروپی یونین کی منڈیوں میں محصولات (tarrif) کی ترجیحات دے کر ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی تجارت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے اور برآمدات سے اضافی آمدنی پیدا کرنے کے قابل بناتا ہے تاکہ ان کی اپنی پائیدار ترقی اور غربت میں کمی کی پالیسی کی حکمت عملیوں کے نفاذ کی حمایت کی جاسکے۔

جی ایس پی پلس پہلے 16 ممالک کو دیا جاتا تھا اور اب یہ 25 ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کو دیا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اہمیت

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کے مطابق جی ایس پی عالمی منڈیوں خاص طور پر یورپی ممالک تک پاکستانی درآمدات پہنچانے کے لیے بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جب پاکستانی معیشت کو درآمدات میں اضافے کی اشد ضرورت ہے اس کی تجدید کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ جی ایس پی پلس کا درجہ برقرار رکھنے یا اس میں تجدید کا فیصلہ یورپی پارلیمنٹ میں اس پر لاگو شرائط  پر پورا اترنے کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے اس میں تجدید کرانا لازم ہے جس کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک سے روابط بہتر ہونا لازم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’درجہ کی تجدید کے لیے دیگر رکن ممالک سے تعاون درکار ہوگا۔ برطانیہ کے علاوہ بھی کئی یورپی ممالک پاکستان کا جی ایس پی پلس درجہ برقرار رکھنے کے حامی ہیں لیکن اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو درآمدات بڑھانے میں مدد ملے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت