ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سنچری‘ بیہودہ اور غیر سنجیدہ ہے

حقیقت میں سب کو ’امن منصوبے‘ کے یہ 80 صفحات پڑھنے چاہئیں اور ہر قاری کو انھیں دو بار پڑھنا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ ایک بار پڑھنے سے فلسطینیوں پر مسلط کی جانے والی توہین کو سمجھ نہ سکیں۔

ٹرمپ نے ایک ایسی دنیا تخلیق کر دی ہے جس میں امریکی صدر کا داماد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے زیادہ طاقتور ہے۔(اے ایف پی)

جب دو پرانے سیاسی فراڈیے اس ہفتے وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطی کی تاریخ کی سب سے بدترین اور دردبھری کامیڈی کے ساتھ نمودار ہوئے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اس پر رویا جائے یا ہنسا جائے۔

ایک ’امن‘ منصوبہ جو 80 صفحات پر مبنی تھا۔ وائٹ ہاؤس کی جاری کردہ اس دستاویز کے پہلے 60 صفحات پر ’ویژن‘ کا لفظ 56 بار موجود تھا اور ہر بار اس لفظ کا پہلا حرف وی کپیٹل میں لکھا گیا تھا۔ میرے خیال میں اس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ یہ ’ڈیل آف دی سنچری‘ ایک مافوق الفطرت انکشاف تھی۔ ایسا نہیں تھا، لیکن ہو سکتا ہے یہ کسی سوپر اسرائیلی نے لکھی ہو۔

اس منصوبے نے فلسطینی پناہ گزینوں کو الوداع کہہ دیا اور ان سے مشہور زمانہ یا بدنام زمانہ ’واپسی کا حق‘ چھین لیا، ان سے بھی جو اس وقت مشرق وسطی کے کیمپوں میں سڑ رہے ہیں۔ بیت المقدس کو بطور فلسطینی دارالحکومت بھی الوداع کہہ دیا گیا اور اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کو بھی خدا حافظ کہہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس منصوبے نے مغربی کنارے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی میں تعمیر کردہ ہر یہودی بستی کو اسرائیل کے ساتھ ملانے اور اسرائیلی قبضے کو خوش آمدید کہا ہے۔

یقینی طور پر یہی ہونا تھا۔ کئی دن سے یہ نظر آرہا تھا کہ یہ بیوقوفی امریکی اور اسرائیلی رہنماؤں کی محنت پر کوئی جادوئی پردہ تان دے گی۔ جب یہ دونوں بدمعاش جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مواخذے کا اور بن یامین نتن یاہو کو کرپشن کی فرد جرم کا سامنا ہے، واشنگٹن میں اپنے حامیوں کی تالیوں کی گونج میں کھڑے مسکرا رہے تھے تو یہ واضح ہو چکا تھا کہ جھوٹ پر مبنی یہ دستاویز بے ہودگی، پرلے درجے کے مزاح، فرسودگی اور ایسے اقدامات کی کہانی ہے جو کسی بھی قسم کی آزاد فلسطینی ریاست کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے تباہ کر دے گی۔ ایسا کہا نہیں گیا لیکن آپ کو اس لفاظی پر غور کرنا ہوگا، اسرائیلی قبضہ جو جدید تاریخ کا طویل ترین قبضہ ہے اسے ’حفاظتی ماڈل‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اوسلو معاہدے کو ایسا منصوبہ قرار دے کر جھٹلایا گیا جس نے ’تشدد اور دہشت کی لہر‘ کو جنم دیا تھا۔

حقیقت میں سب کو یہ 80 صفحات پڑھنے چاہییں اور ہر قاری کو انھیں دو بار پڑھنا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ ایک بار پڑھنے سے فلسطینیوں پر مسلط کی جانے والی توہین کو سمجھ نہ سکیں۔

یہ دستاویز اسرائیل کے لیے صرف ایک تحفہ نہیں تھا بلکہ اس کے اندر ہر وہ اسرائیلی مطالبہ موجود ہے جو اسرائیل نے کبھی امریکہ سے کیا تھا۔ اس معاہدے نے بجا طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہر کوشش کو برباد کر دیا ہے۔ اسرائیلی انخلا کے بارے میں اقوام متحدہ کی ہر قرار داد، یورپی یونین کی ہر کوشش اور مشرق وسطی کی وہ امیدیں جو اسرائیل فلسطین تنازعے کو ایک منصفانہ اور شفاف طریقے سے ختم کرنے سے وابستہ تھیں، انہیں مکمل طورپر ختم کر دیا ہے۔

مختصراً، اسرائیل کو اس منحوس ڈیل کے تحت پورا بیت المقدس ہمیشہ کے لیے دے دیا گیا، مغربی کنارے کا زیادہ تر حصہ بھی اور ہر وہ یہودی بستی جو قبضہ شدہ زمین پر قائم ہے وہ بھی دے دی گئی۔ یہ نہتے فلسطینیوں پر مکمل غلبہ ہے جنھیں اسرائیل کو ’یہودیوں کا قومی وطن‘ قرار دینا ہو گا (اس کے باوجود کہ اس کی 21 فیصد آبادی عرب ہے)۔

انھیں سکولوں میں پڑھائی جانے والی اپنی کتابوں پر پابندی لگانی ہو گی، اسرائیلی قبضے کے خلاف کھڑے ہونے والے فلسطینیوں کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش کرنی ہو گی اور انھیں بیت المقدس کی دیواروں سے باہر ایک بستی کو اپنا دارالحکومت تسلیم کرنا ہو گا۔

حقیقت میں یہ ایک انوکھی اور تاریخی دستاویز ہے جو ٹرمپ کے ماتحتوں خاص طور پر ان کے داماد جیرڈ کشنر نے تیار کی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ فلسطینی ان بے ہودہ بناوٹی سیاسی مطالبوں کو تسلیم کریں گے جس کی کبھی مغربی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن ہم صحافیوں کو کب اس بارے میں رکنا ہوگا یہ میں نے خود سے پوچھا جب میں 56 بار ویژن کا لفظ پڑھ چکا، خیر ایسے اور الفاظ بھی ہیں لیکن وہ چھوٹے وی سے لکھے گئے ہیں۔ اس میں چند ’مقاصد‘ بھی درج ہیں اور اس کے علاوہ فلسطینیوں پر عائد پابندیوں کی ایک فہرست بھی۔

اس فہرست میں یہ ہدایات شامل ہیں کہ ’فلسطینی ریاست کسی ایسی عالمی تنظیم کا حصہ نہیں بنے گی جو فلسطینی ریاست کے ان وعدوں سے تضاد رکھتی ہو جس کے تحت انھیں اسرائیل کے خلاف غیر مسلح رہنا ہو گا اور کسی سیاسی یا عدالتی کارروائی سے باز رہنا ہو گا۔‘

مطلب انھیں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی حفاظت کو بھی الوداع کہنا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے کچھ دوستوں کو جیسے مرگی کا دورہ پڑ گیا جن میں الجزیرہ کے مروان بشارہ بھی شامل ہیں۔ جھوٹ، فراڈ، اشتعال، غیر حقیقی، موقع پرستی، مقبولیت پسندی اور ترش رو۔ انہوں نے یہ تمام الفاظ استعمال کیے لیکن وہ لفظوں سے کھیل رہے تھے۔ اسرائیلی اخبار ہاریٹز سے تعلق رکھنے والے میرے ہیرو گیڈون لیوی اتنے غیر مبہم نہیں تھے۔ وہ الہامی انداز میں کہہ اٹھے کہ یہ ’دو ریاستی حل کے تابوت میں آخری کیل تھی۔‘ انھوں نے لکھا اور ایک حقیقت آشکار کی کہ ’اس دستاویز میں عالمی قوانین، قراردادیں، عالمی برادری اور عالمی ادارے بے وقعت ‘ بتائے گئے ہیں۔

لیوی کہتے ہیں ’کوئی فلسطینی ریاست وجود نہیں رکھتی اور نہ کبھی رکھے گی۔ اب اردن اور بحیرہ روم کے درمیان ایک جمہوری ریاست ہو گی جس میں شاید اسرائیلی اور فلسطینیوں کو برابر حقوق ملیں گے یا اسرائیل ایک نسل پرستانہ ریاست ہو گی۔ ٹرمپ نے ایک ایسی دنیا تخلیق کر دی ہے جس میں امریکی صدر کا داماد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے زیادہ طاقتور ہے۔ اگر اسرائیلی بستیوں کو اجازت دے دی گئی ہے تو ہر چیز کی اجازت دے دی گئی ہے۔‘ اور ایسا ہی ہے۔

لیکن کیا ہم لکھاریوں اور صحافیوں کے پاس اس پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی طریقہ ہے؟ کیا اس وقت تمام اخلاق، انصاف، دیانت اور عظمت کے خاتمے کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ اب ضروری سوال پوچھے جائیں؟ صحافیوں کو اس صورت حال کو کب سنجیدہ لینا چھوڑنا ہو گا؟ کیا ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوششوں کے بارے میں صرف لکھنا ہو گا یا یہ بھی پوچھنا ہو گا کہ یہ کس حد تک قابل قبول، ذلت آمیز اور خطرناک ہے؟ صرف میڈیا والوں کے لیے نہیں بلکہ ان کے لیے جو اس خوفناک دستاویز کے نتائج بھگتیں گے۔ فلسطینی اور وہ تمام افراد جو ہمیشہ ان کی آزادی اور انصاف کے مکمل طور پر جائز مطالبات کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

مجھے اس دستاویز کو پڑھنے کے گھنٹوں بعد اندازہ ہوا کہ ہر وہ اسرائیل مخالف مسلمان جو ’یہودی سازش‘ کے پاگل پن اور شدت پسند خیال پر یقین رکھتا ہے، یہ 80 صفحات اس کے ان خیالات کو مزید راسخ کر دیں گے۔ شاید ایسے معاملات میں ہمھیں اپنے مزاح نگاروں کو دعوت دینی ہو گی کہ وہ رپورٹرز بن جائیں یا خاکہ نگاروں کو کہنا ہو گا کہ وہ یہ خبر لکھیں یا شاید مجھے ادھیڑ عمر رپلی کے اس خیال کو تسلیم کرنا ہو گا جس میں وہ کہتا ہے مانیں یا نہ مانیں‘ تاکہ پیغام کو آگے پہنچایا جا سکے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں: ایک امریکی صدر نے ایک بیرونی طاقت کو کسی اور کی زمین پر مستقل قبضے کا حق دے دیا ہے۔ میرے لیے یہ تمام کہانی ان 15 لفظوں میں مکمل ہو جاتی ہے۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنے اس غیر مشروط سرنڈر پر فلسطینیوں کو پیسہ ملے گا، پیسہ اور مزید پیسہ۔ لاکھوں کے نوٹ جو گرافس اور فنڈنگ کے منصوبوں پر مبنی ہوں گے اور ’فاسٹ ٹریک سیاحت (جس کا لفظ اس دستاویز میں استعمال کیا گیا ہے) اور بہت بڑی سرمایہ کاری، ’سماجی ترقی‘ اور ’خود مختاری‘ اور پھر ’باعزت ، محفوظ اور معاشی مواقع پر مبنی ایک زندگی۔‘

اور کیا ہمارے بورس جانسن ٹرمپ کو نہیں بتا چکے کہ ’یہ مستقبل کے لیے ایک مثبت قدم‘ ہے؟ اور کیا ہمارے ڈومینک راب نے اسے ’سنجیدہ پیشکش‘ نہیں قرار دیا جو ’حقیقت میں سچائی سے پرکھے جانے کی مجاز ہے؟‘

آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن ایسا ہی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر