احسان اللہ احسان: ’مقدمہ چلایا بھی جائے تو ثبوت لانا مشکل‘

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار کے حوالے سے خبریں گذشتہ ہفتے سے گرم ہیں اور اس پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ احسان اللہ احسان کو عدالت میں پیش کر کے ان پر باقاعدہ مقدمہ چلانا چاہیے تھا (فائل تصویر: اے ایف پی)

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار کے حوالے سے خبریں گذشتہ ہفتے سے گرم ہیں اور اس پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ احسان اللہ احسان کو عدالت میں پیش کرکے ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جانا چاہیے تھا تاکہ ان کو سزا مل جاتی لیکن 2017 میں ہتھیار ڈالنے کے بعد وہ سکیورٹی اداروں کی تحویل میں تھے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں یہ بتایا گیا تھا کہ احسان اللہ احسان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا تاکہ ان کو اپنے کیے کی سزا ملے۔

کیا عدالت کی جانب سے انہیں سزا ملنا ممکن تھا؟ اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے تحریک طالبان سوات کے سابق ترجمان مسلم خان کے کیس کا احسان اللہ احسان کے کیس کے ساتھ موازنہ کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اس قسم کے مقدمات میں عدالت کی جانب سے سزا سنائی جاتی ہے یا نہیں۔

مسلم خان ٹی ٹی پی سوات کے سرکردہ رہنما تھے، جو 2007 کے بعد اس تنظیم کے ترجمان مقرر ہوئے۔ انہوں نے سوات میں ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔

سوات میں ملٹری آپریشن کے بعد 2009 میں مسلم خان کو سکیورٹی اداروں کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2015 میں مسلم خان کی دوران حراست ہلاکت کی خبریں میڈیا پر آنا شروع ہوئیں، جو 2016 میں اس وقت غلط ثابت ہوئیں جب پاکستانی فوج کے ترجمان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ مسلم کو دہشت گردی کے مختلف نوعیت کے جرائم کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

سزائے موت سنائے جانے کے بعد مسلم خان کی بیوی کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف پیٹیشن دائر کی گئی اور 2017 میں عدالت نے مسلم خان کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا۔

اس کے بعد مسلم خان کا کیس راولپنڈی کی عدالت منتقل ہو گیا۔

مسلم خان کے وکیل طارق اسد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملٹری کورٹ کی جانب سے مسلم خان کو دی گئی سزا پر عمل درآمد اب تک رکا ہوا ہے اور سزا کو ختم کرنے کی اپیل پر سماعت راولپنڈی عدالت میں ہو رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بہت عرصہ ہو گیا ہے کہ دوبارہ سماعت کے لیے تاریخ نہیں دی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ملٹری کورٹ کی جانب سے مسلم خان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو اس پر عمل درآمد کیوں روک دیا گیا؟ اس حوالے سے مسلم خان کے وکیل طارق اسد نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے موکل کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی لیکن اپیل کا حق نہیں دیا گیا تھا جبکہ مسلم خان کی بیوی کو میڈیا کے ذریعے پتہ چلا تھا کہ ان کے شوہر کو سزا سنائی گئی ہے۔

اسی پر عدالت نے مسلم خان کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا حکم دیا تھا اور یہ کیس ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

’عدالت ثبوت مانگتی ہے‘

اس سارے معاملے پر سپریم کورٹ کے وکیل محمد فہیم ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس قسم کے مقدمات میں عدالت کی جانب سے سزائیں اس لیے معطل ہوتی ہیں کیونکہ عدالتیں ثبوت کی بنا پر فیصلے کرتی ہیں جبکہ دہشت گردوں کے خلاف ایسے ٹھوس ثبوت بہت کم ہی سامنے آتے ہیں کہ انہوں نے کسی بندے کو قتل کیا ہے یا وہ دہشت گرد حملے کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ احسان اللہ احسان کو اگر دیکھا جائے تو انہوں نے مختلف حملوں کی ذمہ داریاں تو قبول کی ہیں لیکن اس بات کا ثبوت لانا مشکل ہو جاتا ہے کہ انہوں نے خود حملہ کرکے کسی کو مارا ہے۔

فہیم ولی کے مطابق: ’ان پر دیگر دفعات جیسا کہ بغاوت، کالعدم تنظیم کا رکن بننے یا غیر قانونی ہجوم کی معاونت کرنے پر سزا ہو سکتی ہے جس میں عمر قید تک کی سزا شامل ہے لیکن پھانسی کی سزا تب ہو سکتی ہے جب کوئی شکایت کنندہ آکر یہ بتائے کہ انہوں نے میرے کسی عزیز کو قتل کیا ہے یا قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹھوس ثبوت لے کر عدالت میں پیش کریں، تب ہی ان کو پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے۔‘

مسلم خان کے کیس کے بارے میں فہیم ولی نے یہی بتایا کہ ان کیسز میں خوف یا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کسی کا عزیز یا رشتہ دار سامنے نہیں آتا کہ وہ عدالت کو بتائے کہ انہوں نے ان کے کسی عزیز کو دھماکے میں ہلاک کیا ہے۔

فہیم ولی نے مزید بتایا کہ ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی ملزم کو رہا کرے اور عدالت کو بتائے کہ اس ملزم کے خلاف ریاست کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

تاہم فہیم کے مطابق یہ ان کیسز میں ہوتا ہے جس میں ریاست خود مدعی ہوتی ہے اور اگر کسی ملزم کے خلاف کسی شخص کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ جرم کیا ہے تو اس صورت میں ریاست یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس قسم کے مقدمات میں جب عدالت کی جانب سے کوئی ملزم رہا کیا جاتا ہے تو پھر لوگ عدالتوں پر الزامات لگاتے ہیں کہ دہشت گردوں کو رہا کیا جارہا ہے لیکن یہ تاثر غلط ہے کیونکہ عدالتیں ہمیشہ ثبوت مانگتی ہیں اور ثبوت کے بغیر کسی بھی ملزم کو سزا نہیں مل سکتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان