کرونا وائرس ایک بڑا خطرہ ہے لیکن اسے روکنے کا امکان موجود ہے: عالمی ادارہ صحت

چین میں کرونا وائرس سے ہونے والے ہلاکتوں میں مزید اضافے کے بعد عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس ’بڑے خطرے‘ سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔

جینیوا کانفرنس میں کرونا وائرس کو باضابطہ طور پر ’سی او وی آئی ڈی 19 ‘ یعنی کووڈ 19 کا نام دے دیا گیا ہے (اے ایف پی)

چین میں کرونا وائرس سے ہونے والے ہلاکتوں میں مزید اضافے کے بعد عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس ’بڑے خطرے‘ سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔

بدھ کو چین میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 11 سو سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ چین میں اب تک کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 44 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

 یہ وائرس چین کے علاوہ درجنوں دیگر ممالک تک بھی پھیل چکا ہے اسی حوالے سے  ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے جینیوا میں ایک کانفرنس جاری ہے۔

جینیوا کانفرنس میں کرونا وائرس کو باضابطہ طور پر SARS-CoV-2  اور اس سے پیدا ہونے والی بیماری کو COVID-19 (کووڈ 19) کا نام دے دیا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے وائرس کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم بھی چین روانہ کر دی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ادھانوم گیبرئسیس کا کہنا ہے کہ وائرس کے ’نتائج کسی دہشتگردی کی کارروائی سے زیادہ سنگین‘ ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹیڈروس کہتے ہیں کہ ’کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں سے 99 فیصد کا تعلق چین سے ہے جہاں پر اس سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن یہ ’پوری دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ‘ ہے۔‘

چینی حکام کی جانب سے مختلف شہروں میں لاکھوں شہریوں کو گھروں میں بند رکھا جا رہا ہے لیکن بدھ کو کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 94 تھی۔ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق چینی صوبے ہیوبی کے شہر ووہان سے تھا۔

کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح تاحال 2 فیصد سے کم ہے۔

تاہم ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’چھوٹے پیمانے پر ہونے والی تشخیص ایک بڑی لہر کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔‘

ہانگ کانگ میں ایک 35 منزلہ عمارت میں دو افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد عمارت سے 100 افراد کو نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

49 سالہ رہائشی چان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میں بہت خوف زدہ ہوں۔‘

امریکہ نے بھی منگل کو غیر ضروری سفارتی عملے کو ’احتیاطی تدابیر کے طور پر‘ ہانگ کانگ چھوڑنے کی اجازت دے دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا