’آپ تو بلوچ عورتیں ہیں، آپ کیوں احتجاج کر رہی ہیں؟‘

بولان میڈیکل کالج کی احتجاجی طالبہ ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ سردار یار محمد رند کو جب میں نے بتایا کہ ہم پر تشدد ہوا ہے تو وہ کہنے لگے کہ آپ تو عورتیں ہیں آپ کیوں احتجاج کر رہی ہیں؟ بلوچ خواتین ایسے کام نہیں کرتی ہیں۔‘

ماہ رنگ کہتی ہیں کہ ’سردار کون ہوتے ہیں مجھے نیچا دکھانے والے، میں کسی سردارکو نہیں مانتی ہوں کیوں کہ مجھے پڑھانے اور تعلیم دینےوالے سردار نہیں ہیں۔‘ (سکرین گریب)

بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے جہاں پر کسی زمانے میں صرف سرداروں کی بات چلتی تھی لیکن اب نوجوان مرد اور خواتین اس روایت کو توڑتے نظرآرہے ہیں ۔

چند روز سے بولان میڈیکل کالج ( جسے یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے ) کی بحالی کے لیے تحریک چل رہی ہے۔ جس کے تحت کالج کے طلبا اور ملازمین نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا اور اس دوران ان سے صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند سمیت دیگر نے مذاکرات کیے۔

مذاکرات کے دوران طالبات کے ساتھ صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ باہر آکر ایک طالبہ نے مظاہرین کے سامنے کہا کہ میں کسی سردار کو نہیں مانتی سردار یار محمد رند اگر سربراہ ہیں تو اپنے قبیلے کے لیکن میرے سردار نہیں ہیں۔

سردار کے خلاف آواز بلند کرنے والی طالبہ ماہ رنگ نے کس وجہ سے یہ کہا اس سلسلے میں جب ماہ رنگ بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب ہم مذاکرات کے لیے اسمبلی کے اندرگئے تو صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند سمیت دیگر وزرا کو ہم نے مطالبات سے آگاہ کیا تو وزیر تعلیم کہنے لگے کہ مجھے تو پتہ نہیں کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے۔‘

ماہ رنگ کہتی ہیں کہ ’سردار یار محمد رند کو جب میں نے بتایا کہ ہم پر تشدد کیا گیا ہے تو وہ کہنے لگے کہ آپ تو عورتیں ہیں آپ کیوں احتجاج کررہی ہیں بلوچ خواتین ایسے کام نہیں کرتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں کہا کہ ’آپ سردار ہو سکتے ہیں رند قبیلے کے لیکن ہمارے نہیں ہیں، جس پر وہ ناراض ہوگئے اور کہنے لگے میں تمام بلوچوں کا سردار ہوں اور مجھے کہا کہ کمرے سے باہر نکل جاؤ۔‘

ماہ رنگ کے بقول ’جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے یہ سب اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’احتجاج کرنا میرا حق ہے میں کرتی رہوں گی۔ میں سردار یار محمد رند کو بتانا چاہتی ہوں کہ آئین کے مطابق آپ کو مجھے جواب دینا ہوگا کہ آپ نے میری بے عزتی کیوں کی ہے۔‘

ان کے مطابق ’جب ہم نےانہیں بتایا کہ ہم ڈاکٹر ہیں روزانہ نہیں آسکتے تو وہ کہنے لگے خواتین کو احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔آپ عزت دار خواتین ہیں تو گھروں میں بیٹھی رہیں۔‘

ماہ رنگ کہتی ہیں کہ ’سردار کون ہوتے ہیں مجھے نیچا دکھانے والے، میں کسی سردارکو نہیں مانتی ہوں کیوں کہ مجھے پڑھانے اور تعلیم دینےوالے سردار نہیں ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ مجھے میرے گھر والے پڑھا رہے ہیں اور خرچہ اٹھارہے ہیں، سردار کو حق نہیں پہنچتا کہ مجھ پر قدغن لگائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے کیا نہیں کرنا چاہیے۔

 ماہ رنگ بلوچ کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی نشر ہوئی جس میں وہ سرداروں کے خلاف بات کرتی نظر آتی ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی ماہ رنگ کی حمایت اور مخالفت میں بھی پوسٹیں کی جا رہی ہیں۔

بلوچستان میں سرداری نظام کس حد تک مضبوط رہ گیا ہے اس بارے میں جب ہم نے معروف دانشور اور مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری سے سوال کیا تو وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سرداری نظام تو موجود نہیں رہا آج لوگوں کو نہیں معلوم کہ فلاں قبیلے کا سردارکون ہے۔

شاہ محمد مری کے مطابق ، بلوچستان میں سرداروں کے خلاف بغاوت چاکر اعظم کے دور سےشروع ہوئی جب اس کے بھانجے بیبرگ نے سردار کی بات ماننے سے انکار کیا تھا۔

بیبرگ نے اپنی ناراضگی کا اظہار بلوچی شاعری کے ذریعے کیا جس کا ترجمہ ہے کہ

اچھا ہے اگر سردار ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے

نہ دے مجھے دودھ کے لیے گائے

نہ دے مجھے سواری کے لیے گھوڑی

میں سندھ نہیں تو ہندوستان چلا جاؤں گا

شاہ محمد مری کے مطابق ’سرداری نظام تو نہیں رہاعدالتی نظام اور جدت نے اسے پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن بلوچستان میں قبائلی رسم ورواج  باقی ہیں۔

شاہ محمد مری کے بقول ایک زمانے میں تو سردار ہی بزرگ، ولی یعنی کے سب کچھ وہی تھا اور قوم کا ہر کام فیصلہ سردار کی مرضی سے ہوتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ زندہ سماج میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک جیسے حالات برقرار رہیں۔ نوجوان تو ہمیشہ سے متحرک اور نظام کے خلاف بولتے رہے ہیں۔

دوسری جانب معروف ادیب اور لکھاری عابد میر سمجھتےہیں کہ ’سردار یار محمد رند کے خلاف حالیہ واقعہ محض ردعمل ہے، اس کی جھاگ جلد بیٹھ جائے گی۔‘

’لیکن رند قبیلے کے طاقت ور سردار کے خلاف جس وسیع پیمانےپر جو زبان استعمال کی گئی کچھ سال پہلے تک بلوچستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔‘

عابد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں موجود سرداری نظام کی سب سے اہم خرابی اس کا موروثی ہونا ہے۔ ہر سردار کے بعد اس کا بیٹا ہی سردار بنے گا۔

عابد کے بقول دور جدید کی ایجاد سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو وائبرنٹ اور بے خوف کر دیا ہے۔ بلوچستان میں سردار اور ان کے حامی اس تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔

عابد میر سمجھتے ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ سردار اس نوشتہ دیوار کو سمجھیں اور قبول کرلیں ورنہ یہ رویہ کسی فکری تحریک میں ڈھل گیا تو سرداری نظام اور اس کے حامیوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔

دانشوروں کا ماننا ہے کہ آج کی جدید دنیا میں پروان چڑھتی نسل کے لیے یہ ناقابلِ قبول ہے کہ کوئی شخص محض اس بنیاد پر قابلِ احترام قرار پائے کیوں کہ وہ موروثی طور پر ایک اعلیٰ طبقے میں پیدا ہوا ہے۔

عابد کے مطابق ، بلوچ سماج میں اب یہ نظام تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اور نئی نسل اس سے سخت بیزار ہے۔

واضح رہے کہ سردار یار محمد رند کے ترجمان نے وضاحت جاری کی کہ اتفاق سے اسمبلی کے باہر یونیورسٹی سے متعلق مسائل پر کچھ طالبات اور بعض غیر متعلقہ خواتین نے مظاہرہ کیا جن کے مسائل سےآگاہی حاصل کی گئی۔

ترجمان کے بیان کے مطابق صوبائی وزیر تعلیم نے مظاہرین کے ساتھ بیٹیوں، بہنوں کی طرح برتاؤ کیا، ان کے سخت رویے کو بھی نظر انداز کیا مگر افسوس اس مجمعے میں شامل ایک نامعلوم طالبہ شاید اپنے کسی اور واقعے کے پس منظر میں جذباتی طور پر اظہار خیال کرتی رہیں۔

دانشوروں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر سرداروں کی آئندہ نسل کے لیے اپنی قبائلی شناخت کی بنا پر سماج میں عزت و طاقت کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان