اسلام آباد سی ڈی اے کے رحم و کرم پر

یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ہماری پوری وفاقی حکومت کے زیر انتظام صرف ایک چھوٹا سا شہر اسلام آباد ہے لیکن ان سے یہ بھی نہیں سنبھالا جا رہا ہے۔

  مارگلہ کے پہاڑوں کو ان عمارتوں نے  چھپا دیا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد 80 کی دہائی تک یقینا ایک دلکش، صاف ستھرا اور اچھے طریقے سے چلائے جانے والا شہر تھا۔ شہری انتظامیہ یعنی کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود تسلی بخش طریقے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن آج کا اسلام آباد ماسٹر پلان کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث ایک مختلف نقشہ پیش کر رہا ہے۔

سی ڈی اے کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے اس کا حال پاکستان کے دیگر شہروں سے مختلف نظر نہیں آتا۔ اسلام آباد کا نقشہ بنانے والے یونانی معمار ڈوکسی یاڈس کی روح کو تکلیف پہنچا رہی ہوگی۔ اب کوڑے کے ڈھیر آپ کو اسلام آباد میں جابجا نظر آتے ہیں۔ اس جانب ایک مرتبہ سابق جرمن سفیر نے بھی سوشل میڈیا پر توجہ دلائی تھی جو ہمارے لیے بین الاقوامی طور پر کافی شرمندگی کا باعث بنی۔

یہاں ڈاکے بھی پڑتے ہیں۔ ٹریفک کسی بھی پاکستانی شہر کی طرح بےہنگم ہوتی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کے باسی بھی دیگر شہروں کی طرح اب پانی کو ترستے ہیں۔ گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کام نہیں کر رہی ہوتیں اور گٹر ابل رہے ہوتے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

 نئےD-12 اور اس جیسے دیگر سیکٹر آپ کو آفت زدہ علاقے نظر آتے ہیں۔ گرین بیلٹ کو بھی مجرمانہ طریقے سے آہستہ آہستہ کم کیا جا رہا ہے۔

بڑھتے ہوئے شہر کی ضروریات کے مطابق نہ تو تعلیمی ادارے بنائے جا رہے ہیں اور نہ ہی صحت کی سہولتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ہماری پوری وفاقی حکومت کی زیر انتظام صرف ایک چھوٹا سا شہر اسلام آباد ہے لیکن ان سے یہ بھی نہیں سنبھالا جا رہا ہے۔ آپ اس وفاقی حکومت سے توقع بھی کیا کر سکتے ہیں جس کا ڈپٹی کمشنر ان بڑے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے غیرضروری کاموں میں مصروف ہے۔ 

اسلام آباد کے تجارتی بلو ایریا کا ایک منظر (اے ایف پی)


سستی شہرت کے لیے مختلف عمارتیں تو گرا دی جاتی ہیں لیکن ان کا ملبہ صاف کرنا کیا ان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے؟ شاید ان کی ذمہ داری اسلام آباد کی بدصورتی میں اضافہ کرنا ہی رہ گیا ہے۔ اب تک ہم نے نہیں سنا کہ اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے میں ان غیرقانونی عمارتوں کو بنانے کی اجازت دینے والوں کے خلاف کیا کوئی کارروائی کی گئی ہے۔

اسلام آباد کی شہری سہولتوں کو بہتر بنانا اور نئے سیکٹر آباد کرنا سی ڈی اے کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس تقریبا 14 ہزار کے قریب ملازمین کی فوج ظفر موج ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد مالیوں کی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کی قسمت کے مالکوں میں میئر کا دفتر اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کی انتظامیہ بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد جیسے چھوٹے شہر کے لیے ایک انسپکٹر جنرل پولیس کا بھی انتظام ہے۔ رینجرز بھی آپ کو جگہ جگہ نظر آتی ہے اور اب تو بحریہ اور فضائیہ کی پولیس بھی ای 8 اور ای 9 سیکٹروں کے آس پاس گھومتے پھرتے نظر آتی ہے۔ جلد ہی ان میں ملٹری پولیس بھی شامل ہو جائے گی۔

بجائے اس کے کہ ان لاتعداد اداروں کی موجودگی سے شہر کے حالات بہتر ہوں، شہر ایک وسیع بدانتظامی اور بدامنی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ پست ہمت سی ڈی اے میں اتنی جرات نہیں تھی کہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی صریح خلاف ورزی کی مظہر فضائیہ اور بحریہ کو رہائشی علاقے میں یونیورسٹیاں بنانے کی اجازت نہ دیتی۔ ان دو یونیورسٹیوں نے اسلام آباد کی سب سے خوبصورت سڑک مارگلہ روڈ کی شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے۔ ایف 8 کے رہائشی ان دو یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی گاڑیوں سے عاجز آ چکے ہیں اور مارگلہ روڈ کا یہ حصہ ایک بہت بڑی پارکنگ لاٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ شہریوں کے لیے ٹریفک کے شدید مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

تجاوزات گرانے کے بعد ملبہ وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے (سی ڈی اے)

کب کسی پرائیویٹ یونیورسٹی کو اس طرح رہائشی علاقوں میں عمارات قائم کرنے کی اجازت دی جا سکتی تھی۔ اب جب کہ جی ایچ کیو اسلام آباد آیا چاہتا ہے تو خدشہ ہے کہ مارگلہ روڈ مزید ابتری کی طرف جائے گا۔ اس سلسلے میں یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ یہ سڑک اتنی زیادہ ٹریفک کو ہینڈل بھی کرسکے گی یا نہیں۔

اسی روڈ پر ان عسکری سیکٹروں کے سامنے سکیورٹی کے نام پر رکاوٹیں اور تجاوزات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ رکاوٹیں اور تجاوزات اسلام آباد کے ماسٹر پلان اور مختلف عدالتی احکامات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان عسکری سیکٹروں اور ای 11 نے مارگلہ روڈ سے مارگلہ پہاڑیوں کا دلکش نظارہ ختم کر دیا ہے اور مارگلہ کی پہاڑیوں کے سامنے مختلف اپارٹمنٹ بلاکس، ہسپتال اور شادی ہال بنا کر شہر کی بدصورتی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسی روڈ پر ان عسکری سیکٹروں کے سامنے جی ایچ کیو کے دو نئے سیکٹر مارگلہ روڈ کی خوبصورتی کو ختم کرنے میں مزید مددگار ثابت ہوں گے۔

اسلام آباد کی ٹریفک ہمیشہ نظم و ضبط کے مطابق چلتی تھی اور بہت کم لوگ ٹریفک قوانین کو توڑتے تھے۔ یہ شہر پورے پاکستان میں اس نظم و ضبط کے لیے مشہور تھا اور ٹریفک پولیس بڑی دلجمعی اور فرض شناسی سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی تھی۔ اس وقت اسلام آباد کی ٹریفک باقی دوسرے شہروں کی طرح بے ہنگم ہو گئی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹریفک کے لیے تیزی سے فلائی اور نہیں بن رہے۔ اس کی ایک مثال ایف نائن چوک پر دفتری اوقات میں شدید رش ہے۔ ٹریفک پولیس میں عہدیداروں کے بڑھنے سے ٹریفک میں بہتری آنے کی بجائے تنزلی آنی شروع ہو گئی ہے۔ اب آپ ٹریفک قوانین کی خوشی سے خلاف ورزی کریں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہیں۔ ہر ٹریفک سگنل پر بڑی تعداد میں بھکاری گاڑیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں مگر ڈی سی اسلام آباد اور پولیس کو اس کی رتی بھر فکر نہیں کہ ملک کے دارالحکومت کی یہ تصویر ہمارے غیر ملکی مہمانوں پر کیا اثر ڈالتی ہو گی۔

یہ تمام مسائل اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نااہل سی ڈی اے اور دوسرے متعلقہ ادارے اس شہر کو چلانے کے قابل ہی نہیں۔ آپ سی ڈی اے کے دفتر سے کوئی کام بھی بغیر رشوت دیے نہیں کروا سکتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان اداروں کی جانچ پڑتال کی جائے اور اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا جائے جس سے پاکستان کا دارالحکومت اپنی پرانی عظمت اور شان وشوکت کو بحال کر سکے۔

ٹاؤن پلاننگ ایک سائنس بن چکی ہے۔ سی ڈی اے کے اعلیٰ اہلکار اس شعبے کے ماہر ہونے چاہیے نا کہ DMG/PAS کے افسران کو انعام کے طور پر یہ شہر حوالے کر دیا جائے۔ پاکستان میں تمام مسائل انتظامی نہیں ہیں بلکہ کچھ مسائل کو حل کرنے کے لیے اہلکاروں کی اس میدان میں قابلیت اور بصیرت بھی چاہیے۔

سی ڈی اے کے ملازمین میں بھی بڑے پیمانے پر کمی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی بڑی تعداد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہے یا انہیں ادا ہی نہیں کرنا چاہتی۔ بہت سارے ملازمین صرف سی ڈی اے کے افسران کے گھروں میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے تجرباتی طور پر سی ڈی اے کی شہری سہولیات مہیا کرنے کی ذمہ داری کو بتدریج پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دینا چاہیے۔

اس سلسلے میں کوشش ہونی چاہیے کہ پرائیویٹ سیکٹر ان فارغ ملازمین کو نوکری دینے میں ترجیح دے۔ پرائیویٹ سیکٹر کا شہر کی صفائی کا تجربہ لاہور میں کامیابی سے چلایا گیا ہے اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسلام آباد میں بھی کامیاب نہ ہو۔ اس کو زیادہ بہتر چلانے کے لیے ضروری ہوگا کہ ان کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے اسلام آباد کے شہریوں کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے۔ اگر پرائیویٹ سیکٹر میں بحریہ ٹاؤن بہترین شہری سہولتیں مہیا کر سکتا ہے تو یقینا یہی سہولتیں پرائیویٹ سیکٹر اسلام آباد میں بھی ممکن بنا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی ڈی اے کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی موبائل ایپلی کیشن بنانی چاہیے جس میں شہری اپنی شکایات درج کر سکیں اور ان شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے ایک موثر میکنزم ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کے پورٹل کی طرح اس نظام میں بھی سزا و جزا کا اہتمام، ہماری شہری سہولتوں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔

گو سی ڈی اے ایک متمول ادارہ ہے اور اسے اپنے وسائل اسلام آباد کی بہتری کے لیے فراخدلی سے استعمال کرنے چاہییں مگر اس میں کوئی حرج نہیں اگر شہر میں قائم مختلف کمپنیوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کو اسلام آباد کی خوبصورتی بڑھانے میں کوئی کردار دیا جائے۔ ابتدا کے طور پر ان اداروں کو فاطمہ جناح پارک کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ پارک کے مختلف حصے ان کمپنیوں کے حوالے کیے جا سکتے ہیں اور ان حصوں کو ان کمپنیوں کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح بڑی آسانی سے قلیل عرصے میں اسلام آباد کے سب سے بڑے پارک کو سنٹرل پارک یا ہائیڈ پارک کی طرح خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت اس پارک کی صورت حال یہ ہے کہ کچھ فکرمند شہری صبح صبح مختلف گروپوں میں آ کر خود اس پارک کی صفائی کر رہے ہوتے ہیں اور سی ڈی اے کے دس سے گیارہ ہزار مالی کہیں دکھائی نہیں دیتے۔

سنا تھا کہ شہر کے ماسٹر پلان پر طویل عرصے کے بعد نظرثانی ہو رہی ہے لیکن نا تو یہ معلوم ہوسکا کہ وہ کسی مرحلے میں ہے اور نہ ہی اس بارے میں عوامی رائے مانگی گئی ہے۔ ان تمام شہری مسائل کا فوری تدارک ضروری ہے ورنہ بہت جلد اسلام آباد ہمارے دوسرے شہروں کی طرح ایک عام اور رہائش کے لیے مشکل شہر بن جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ