پی ایس ایل فائیو: ’21 کروڑ کی تقریب ایک روپے کی نہیں تھی‘

میڈیا باکس میں گنتی کی تین خواتین میں سے میرے برابر بیٹھی ایک رپورٹر اونگتے ہوئے میرے کندھے سے ٹکرائیں، پھر یک دم اٹھ کے پوچھنے لگیں ’ختم ہوگئی سرمنی؟‘

ابرار الحق تھے جنہوں نے سٹیج سے نیچے اتر کر لائٹوں والے رکشے میں اور پیدل گراؤنڈ کا پورا چکر لگایا (پاکستان سپر لیگ)

کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے کوشش نہیں کی، بہت کوشش کی دیکھنے سننے اور سمجھنے کی لیکن مجال ہے کہ پی ایس ایل کے پانچویں ایڈیشن کی افتتاحی تقریب سمجھ آئی ہو۔

میڈیا باکس میں گنتی کی تین خواتین میں سے میرے برابر بیٹھی ایک رپورٹر اونگتے ہوئے میرے کندھے سے ٹکرائیں، پھر یک دم اٹھ کے پوچھنے لگیں ’ختم ہوگئی سرمنی؟‘

میں نے بھی بیزاری سے کہا: ’ابھی تو شروع ہوئی ہے۔‘

آئیمہ بیگ نے اپنی پرفارمنس میں لپ سنگ کیا، لیکن وہ بھی آؤٹ تھا۔ ہر پرفارمنس کے بیچ میں پانچ سے دس منٹ کا گیپ تھا۔

بھارت سے بلوائی گئی شو ڈائریکٹر فیرس وھیل انٹرٹینمنٹ پرائیوٹ لمیٹڈ کی فاؤنڈر شبھرا بھردواج جنہوں نے پہلی سرمنی بھی ڈائیریکٹ کی تھی وہ صرف دو روز قبل کراچی آئیں۔

پی ایس ایل فائیو کا آغاز رنگا رنگ تقریب سے ہونا تھا لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی سکول کی اسمبلی یا 14 اگست پر ہونے والا کوئی روائتی رقص کا پروگرام ہو۔

سوچ بینڈ، سنم ماروی، آئیمہ بیگ، سجاد علی اور عاصم اظہر کب آئے کب گئے کچھ پتا نہ چلا۔ 

یہ تو ابرار الحق تھے جنہوں نے سٹیج سے نیچے اتر کر لائٹوں والے رکشے میں اور پیدل گراؤنڈ کا پورا چکر لگایا جس پر عوام تھوڑا نیند سے جاگی اور پہلی بار عوام کا شور سنائی دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آخر میں راحت فتح علی خان کی پرفارمنس ’چیری آن دی ٹاپ‘ تو نہیں لیکن باقیوں سے بہتر تھی۔

اب تک میڈیا باکس میں اندھیرا تھا لائٹس بند تھیں، سونے والا ماحول بنا ہوا تھا اور افتتاحی تقریب بھی مایوس کن، اچانک سے کمرے کی لائٹ کھلی اور کسی نے بتایا کھانا لگ گیا ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں ایک گنھٹے کی مایوس کن تقریب کے بعد یہ واحد چیز تھی جو انٹرٹیننگ تھی۔ 

ساتھ ہی بیٹھے کچھ صحافیوں کا کہنا تھا کہ گراؤنڈ آج کی تقریب کے لیے صرف 70 فیصد ہی بھر پایا۔ سکور بورڈ کے ساتھ ہی موجود فرسٹ کلاس انکلوژرز قرار دیے گئے محمد برادرز، اقبال قاسم، نعیم الغنی اور افتخار عالم انکلوژرز ذیادہ تر خالی تھے۔ 

آدھے گھٹے تاخیر سے کوئٹہ گلیڈئیٹرز اور اسلاآباد یونائیٹڈ کے درمیان ہونے والے میچ کا ٹاس کوئٹہ گلیڈئیٹرز نے جیت کر فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو شائقین نے بھی سکون کا سانس لیا۔

نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر حنا دیدار سے میں نے پوچھا کہ ایک لفظ میں آج کی تقریب کو بیان کریں تو انہوں نے ’بورنگ‘ لفظ کا انتخاب کیا۔

صحافی فیضان لکھانی کا کہنا تھا کہ پرفارمرز میں جان نہیں تھی، بس آخر کی آتش بازی دیکھ کر مزا آیا۔ ایسا لگا کہ شروع کے 19 اوورز میں ٹک ٹک اور آخر میں چھکے چوکے مارے گئے۔ 

مدیحہ خان  نامی خاتون جو انگلش انسٹرکٹر اور پارٹ ٹائم ویڈنگ فوٹوگرافر افتتاحی تقریب کے بارے میں خیال کا اظہار کچھ ایسے الفاظ میں کیا: ’21 کروڑ کی تقریب ایک روپے کی نہیں تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ہزار روپے والے تین پاسز لیے لیکن پیسے ضائع ہوگئے۔‘ 

بعض لوگوں کا تو یہ کہنا تھا کہ اگر معلوم ہوتا کہ افتتاحی تقریب ایسی ہوگی تو ایک سے دو میل چل کر نہ آتے۔ 

اب اس تقریب سے قبل کی داستان بھی سن لیں۔

جن لوگوں نے کرکٹ کی واپسی کے لیے دس سال انتظار کیا ان کا مزید امتحان لینے کے لیے سٹیڈیم کی جانب آنے والے تین بڑے روڈز بند تھے، اب کچھ بھی ہو میچ تو دیکھنا تھا اس لیے کافی دور سے سٹیڈیم کی جانب چل کر شائقین سٹیڈیم میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ جاننے کے لیے کہ عوام سٹیڈیم کے اندر آنے کے لیے کس مرحلے سے گزرتی ہے ہم نے بھی نیپا سے سِوک سینٹر کی طرف جانے والے یونیورسٹی روڈ پر واقع انٹرنس گیٹ سے داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔

اس دوران ایک پریشان حال اقصیٰ نامی خاتون ملیں جو میچ دیکھنے کے لیے بہت شوق سے آئی تھیں لیکن ہر طرف اندھیرا اور کنٹینرز لگے دیکھ کر گھبرا گئیں۔

خاتون کی مدد کرنا ضروری جان کر تقریباً دس افراد سے پوچھتے پاچھتے ہم تقریباً ایک میل کی واک کرکے گیٹ نمبر ون پر پہنچے۔ گیٹ سے اندر جانے سے لے کر پک اپ پوائنٹ پر پہنچنے تک معاملات بہتر تھے لیکن جیسے ہی پہلی بس میں چڑھنے کی کوشش کی تو اس قدر زور سے دھکا لگا کہ میرے چاروں طبق روشن ہوگئے۔

اقصیٰ نے ہار مان لی اور ہٹ کر سائڈ پہ کھڑی ہو گئیں۔ صحافی کو دھکے کھانے کی عادت ہے تو ایک اور کوشش کرنا لازمی تھا لیکن دس بارہ لڑکوں کے درمیان جب دھکم پیل شروع ہوئی تو میں بھی ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ میری آنکھوں کے سامنے تین بسز بھر کر آکے بڑھیں تو اگلے بیس منٹ تک ان کی شکل نہیں دیکھی۔ 

میرے ساتھ موجود خاتون نے فیصلہ کیا کہ اپنے کچھ دوستوں کا وہیں رک کر انتظار کرے گیں لیکن اگلے پوائنٹ پر میں انہیں خدا حافظ کہہ کر بس پر چڑھ گئی۔

جہاں بس سروس چلانا نہیں تھی وہاں چلائی گئی اور جہاں چلانا تھی وہاں شائیقین کی واک کروائی گئی۔

سٹیڈیم کی طرف بڑھتے ہوئے لمبی لمبی قطاریں نظر آنا شروع ہوئیں۔ سٹیڈیم کے پہلے دروازے سے اندر داخل ہونے کے لیے مردوں کی لمبی ترین قطاروں کے درمیان سے گیٹ تک پہنچنے ہی لگی تھی تو اچانک سے ہوٹنگ شروع ہوگئی۔

ایسا لگا کہ میرے فینز نے آخر کار مجھے پہچان لیا لیکن پیچھے مڑ کر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ میں اس وقت وہاں پر موجود واحد خاتون تھی اس لیے اتنی عزت افزائی ہوئی۔ 

اب یہاں سے آگے کا مرحلہ میڈیا باکس میں جانے کے بعد شروع ہوا جو آپ جانتے ہیں۔ آخر میں بس یہ سوال ذہن میں آیا کہ جب سٹیڈیم میں آنے کا مرحلہ اتنا مشکل تھا تو رات 12 بجے یہاں سے جانا کتنا مشکل ہوگا اور میچ دیکھنے آئی خواتین راستے بند ہونے کے باعث اتنی رات میں کہاں تک چل کر جائیں گی۔ 

بھارت سے شو ڈائریکٹر شوبا بھردواج سے شو ڈائریکٹ کروا کر اور گہری نیند سلا دینے والی سرمنی پر 21 کڑوڑ روپے خرچ کر کے پی ایس ایل سیزن فائیو کا آغاز تو ہو گیا لیکن مستقبل میں کھیلے جانے والے میچز کتنا انٹرٹین کریں گے یہ دیکھنا باقی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ