طویل عمر پانے کا راز: ’بھوکے اور بے آرام  رہیں‘

سو سال تک زندہ رہنے کو شاید طویل العمری کہا جا سکتا ہے تاہم ہارورڈ میڈیکل سکول سے وابستہ جینیات کے پروفیسر کا خیال ہے کہ انسانوں کے لیے اس سے بھی زیادہ طویل زندگی کا حصول ممکن ہے۔

طویل عمر کے لیے آپ کو دواؤں کی ضرورت نہیں ہے (اے ایف پی)

سو سال تک زندہ رہنے کو شاید طویل العمری کہا جا سکتا ہے تاہم ہارورڈ میڈیکل سکول سے وابستہ جینیات کے پروفیسر کا خیال ہے کہ انسانوں کے لیے اس سے بھی زیادہ طویل زندگی کا حصول ممکن ہے۔

’پال گلین سینٹر فار بیالوجیکل میکانزم آف ایجنگ‘ کے شریک ڈائریکٹر اور جینیات اور عمر بڑھنے کے عمل پر متعدد کتابوں کے مصنف، پی ایچ ڈی، پروفیسر ڈیوڈ سنکلیئر کا کہنا ہے کہ عمر کا بڑھنا ایک بیماری ہے جسے انسانوں کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔

تاہم اسے پورا کرنے کے لیے آپ کو دواؤں کی ضرورت نہیں ہے، جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے ’بے آرامی‘۔

’رِچ رول پاڈکاسٹ‘ پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر سنکلیئر کا کہنا تھا: ’اس کی آخری حد یہ ہے کہ آپ کو اپنے جسم کو اس کے کمفرٹ زون سے باہر نکالنا ہو گا۔ ہم اس عمل کو ’ہارمیسس‘  کا نام دیتے ہیں۔

’آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسٔلہ یہ ہے کہ ہم بس کھانا اور آرام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بے آرامی محسوس نہیں کرنا چاہتے اور یہی وجہ تمام مسائل کی جڑ بنتی جا رہی ہے۔ اگر ہم اپنے جسم کو یہ نہ بتائیں کہ اس سے مسائل پیدا ہو جائیں گے تو جسم اس کی پروا نہیں کرتا، یہ بیماریوں کے خلاف نہیں لڑتا اور نہ ہی بڑھاپے کے عمل کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔‘

سنکلیئر کی جانب سے جسم کو عمر بڑھنے کے عمل کے خلاف لڑنے اور اس عمل کو ریورس کرنے کے طریقے نئے نہیں ہیں۔ یہ ہم پہلے بھی کئی بار سن چکے ہیں تاہم ان سب میں جو بات مشترک ہے وہ بھی ’بے آرامی‘ ہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنکلیئر کے مطابق لوگوں کو زیادہ عرصہ زندہ رہنے کے لیے جو کام سب سے پہلے کرنا ضروری ہے وہ ہے معمول سے کم کھانا۔

’میرے خیال میں اچھی صحت کو بڑھانے کے حوالے سے اگر صرف ایک چیز بتانا ہو تو وہ یہ ہو گی کہ معمول سے کم کھایے۔ ایک دن میں تین بار کھانا مت کھائیں۔‘

صحت مند زندگی گزارنے کے لیے اگلا قدم کثرت سے ورزش کرنا ہے۔  

سنکلیئر نے یہ بھی مشورہ دیا کہ کثرت سے روزہ رکھیں یا بھوکا رہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایک دن میں ایک یا دو وقت کے کھانے سے اجتناب کرتے تھے جس نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔

روزہ رکھنا یا فاقہ کشی سے عمر بڑھنے کے عمل سے لڑا جا سکتا ہے کیوں کہ اس سے این اے ڈی پلس کی سطح میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس سے بلآخر جسم کی مرمت کرنے والے جینز زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں۔ یہ سوانا باتھ میں گرم اور سرد درجہ حرارت سے خود کو ہم آہنگ کرنے جیسا ہے۔

اس کے علاوہ ہارورڈ کے پروفیسر قابل قبول حد تک نیند لینے اور خوراک میں گوشت کی مقدار کو محدود کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیوں کہ گوشت میں موجود آمائنو ایسڈ ایم ٹار کو سرگروم کر دیتا ہے، یہ وہ عمل ہے جو ہمارے جسم کے دفاعی میکانزم کو بند کر دیتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ بڑھنے کا وقت ہے۔

بلآخر کوئی بھی سخت کام یا دباؤ جیسا کہ ورزش، بھوکا رہنا یا گرم، سرد سہنے سے آپ کے این اے ڈی پلس کی سطح بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں sirtuins ٹھیک طریقے سے کام کرتے ہیں، پروٹین کی ایک ایسی قسم پیدا کرتی ہے جو جینز کی ترکیب کو منعظم کرتا ہے اور ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت کرتا ہے۔

این اے ڈی پلس کے بغیر بڑھاپے کا عمل جلد وقوع پذیر ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس سے قطع نظر کہ آپ کی جینیاتی ساخت کیا ہے۔ جیسا کہ سنکلیر اس وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں: ’بڑھاپے میں ہماری 80 فیصد صحت کا دارمدار ہمارے طرز زندگی پر ہوتا ہے جبکہ اس کا 20محض  فیصد انحصار ہماری جنیاتی ساخت پر ہوتا ہے۔‘

ان کارآمد اقدامات سے عمر بڑھنے کے عمل سے لڑا جا سکتا ہے۔ سنکلیر کے خیال میں ’ایک ایسی دنیا کا حصول ممکن ہے جہاں لوگ 250 سالوں تک جی سکیں اور 120 سال کی عمر میں بھی ٹینس کھیل رہے ہوں۔‘

’ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسا نہ کر سکیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت