کیا ہینڈ سینیٹائزر ماحول دوست ہیں؟

یہ جل پلاسٹک کی بوتلوں میں ملتے ہیں، ہاتھ صاف کرنے کے لیے اگر ہر کوئی بڑے پیمانے پر جل استعمال کرے گا تو اس صورت میں یہ بوتلیں بڑی مقدار میں کچرا بنیں گی جس کا ایک بہت بڑا حصہ دوبارہ قابل استعمال نہیں بنایا جائے گا۔

عالمی ادارہ صحت ہاتھوں کی صفائی پر زور دیتے ہوئے  کہہ رہا ہے کہ یہ  عمل نقصان دہ جراثیم کو پھیلنے سے روکنے کا مؤثر ترین طریقہ ہے (تصویر:پکسابے)

اس وقت کرونا وائرس ایسے خوف کی وجہ بنا ہوا ہے کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بیکٹریا کش مصنوعات جیسے کہ ہاتھ صاف کرنے کا لوشن اور صابن تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں۔

میں دیکھ سکتی ہوں کہ ہاتھ صاف کرنے کی جل (gel) کیوں مقبول ہیں۔ وہ سائز میں چھوٹی اور سستی ہیں اور آپ انہیں پسندیدہ خوشبو، رنگ اور ڈبے میں حاصل کرسکتے ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ بیکٹریا کش جل اتنی بھی خوشنما نہ ہوں جتنی وہ پہلی بار دکھائی دیتی ہیں۔ ان حالات میں کہ جب وبائی امراض عالمی سطح پر پھیلے ہیں ہم ماحول کی قیمت پر سہولت سے فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں؟

میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہمیں اپنے ہاتھ صاف نہیں کرنی چاہییں۔ حقیت میں عالمی ادارہ صحت ہاتھوں کی صفائی پر زور دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ عمل نقصان دہ جراثیم کو پھیلنے سے روکنے کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔ ادارے کا مشورہ ہے کہ ہاتھ صابن، گرم پانی یا ہاتھ صاف کرنے والے لوشن سے بار بار دھوئے جائیں لیکن صرف اس صورت میں کہ ہاتھ صاف دکھائی دے رہے ہوں۔

میں اکثر ہاتھ صاف کرنے کی جل استعمال کرتی ہوں۔ وہ میرے بیگ میں زیادہ جگہ نہیں لیتیں اور اس صورت میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں جب میں دن کا کھانا گھر پر نہیں کھاتی۔ کسی بھی جگہ قریب ہی ہاتھ دھونے کا مقام نہ ملنے یا صابن ختم ہو جانے کی صورت میں یہ جل مفید ہیں۔

لیکن ان کا استعمال ماحول کےساتھ مسائل جڑا ہوا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ جل پلاسٹک کی بوتلوں میں ملتے ہیں جن میں 30 سے 50 ملی لیٹر تک جل ہوتی ہے۔ ہاتھ صاف کرنے کے لیے اگر ہر کوئی بڑے پیمانے پر جل استعمال کرے گا تو اس صورت میں یہ بوتلیں بڑی مقدار میں کچرا بنیں گی جس کا ایک بہت بڑا حصہ دوبارہ قابل استعمال نہیں بنایا جائے گا یا نہیں بنایا جا سکے گا اور بالآخر کسی جگہ ڈھیرہو جائے گا۔

بیکٹیریا کش صابن بھی کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ ان میں ٹرائیکلوکاربن (ٹی سی سی) اور ٹرائیکلوسن (ٹی سی ایس) جسے کیمیکل ہوتے ہیں جو ماحول کے لیے خاص طور پر نقصان دہ ہیں کیونکہ انہیں سِنک میں بہا دیا جاتا ہے اور انہیں آسانی سے تلف نہیں کیا جا سکتا، جس سے ہمارے آبی نظام آلودہ ہو جاتے ہیں اور فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے امریکی ادارے کے مطابق ایسا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ بیکٹیریا کش صابن عام صابن سے زیادہ مؤثر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس لیے اس ہفتے میں نے ان کا متبادل تلاش کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے باتھ روم میں پلاسٹک کی بوتل میں موجود بیکٹیریا کش مائع صابن کو سادہ صابن کے ساتھ تبدیل کر دیا جن کا ریپر کاغذ کا بنا ہوا تھا (اگرچہ بہت سی دوسری چیزوں کی طرح میرے ہاسٹل میں اب یہ پراسرار طور پر غائب ہو چکا ہے)۔

عام صابن خریدنے میں سستے اور مائع صابن کے مقابلے میں زیادہ چلتے ہیں اور اگر آپ کو صحیح اجزا مل جائیں تو آپ خود بھی انہیں تیار کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے کورس کے اختتام پر اس کے جائزے کی وجہ سے میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس ہفتے میں اپنے لیے خود صابن تیار کرسکوں لیکن میں نے ایسٹر کے موقعے پر ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

میں ہاتھ صاف کرنے والے مواد کا استعمال کم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں اسے صرف اس وقت استعمال کرتی ہوں جب ضروری ہو اور صابن یا پانی سے دھونا ناممکن ہو۔

سفر کے دوران یا عوامی مقامات پر صابن اور پانی کا روایتی پرانا طریقہ ہمیشہ قابل عمل نہیں ہوتا اور ہاتھوں کے لیے معیاری جل کا متبادل تلاش کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ میں نے ہاتھوں کی صفائی کے لیے اپنے سینیٹائزر بنانے کے بارے میں سوچا تاہم آن لائن دیے جانے والے متعدد مشوروں میں ان کی تیاری کے پیچیدہ طریقہ کار اور ان کے اجزا کے بارے میں خبردار کیا گیا۔

میری قسمت اچھی تھی کہ بازار میں تلاش کے دوران مجھے ہاتھوں کی صفائی کے لیے خالص اور قدرتی سینیٹائزر مل گئے جبکہ آن لائن مزید سامان بھی مل گیا۔ یہ سینیٹائزر عام سینیٹائزر کے مقابلے میں صرف تھوڑا سا زیادہ مہنگے ہیں لیکن آپ کی جلد کے لیے زیادہ بہتر بھی ہیں۔ جب میں نے ایسا ہی سینیٹائرز خریدا تو یہ یقینی بنایا کہ یہ کسی دوبارہ قابل استعمال بن سکنے والی بوتل میں ہو تاکہ جب سینیٹائزر ختم ہو جائے تو میں اس بوتل کو ایک بڑی بوتل سے دوبارہ بھر سکوں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات