’سکالر شپ غریب مگر قابل بچوں تک پہنچنا ممکن ہی نہیں‘

ماہر تعلیم حاشر ابن ارشاد نے سوال کیا ہے کہ سکالرشپ تو حکومتیں 70 سال سے دے رہی ہیں لیکن کسے دے رہی ہیں؟ اور غریب بچے کی ہمارے نزدیک تعریف کیا ہے؟

ہم لوگ بچپن سے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ سنتے آئے ہیں۔ اس کے بعد اگلا نمبر غریب کے بچے کو تعلیم دینے کا ہوتا ہے۔

غریبوں کے بچے جیسے تیسے ابتدائی تعلیم حاصل کر بھی لیں تو اعلیٰ تعلیم کے لیے انہیں حکومتی امداد یا وظیفے کی طرف دیکھنا ہی پڑتا ہے۔

اعلیٰ اور ابتدائی تعلیم کے درمیان ایک رکاوٹ اور بھی موجود ہے جس کی طرف ہم لوگوں کا دھیان نہیں جاتا۔ وہ ہر ادارے میں داخلے کے لیے لازم قرار دیے گئے ایپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ ہیں۔

پاکستان میں ایک پروجیکٹ اس نوعیت کا بھی ہوا تھا جس میں ایسے بچوں کو حکومت کی جانب سے مالی وسائل دیے جاتے تھے جن کے گھر والے اس ٹیسٹ کی تیاری کے لیے پیسے دینا افورڈ نہیں کر سکتی تھیں۔

اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر حاشر ابن ارشاد تھے جو ماہر تعلیم ہیں اور مختلف اداروں میں ان کے بہت سے شاگرد اب پڑھا بھی رہے ہیں۔ آئی سی ایم سی کانفرنس میں ان سے ملاقات ہوئی تو انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں ان سے پوچھا۔

حاشر ابن ارشاد کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس نوعیت کے صرف دو پروجیکٹ ہوئے ہیں۔ ایک بھارت میں تھا جو پرائیوٹ سیکٹر میں ہوا اور دس سال میں اس سے 450 غریب بچے مستفید ہوئے۔ انہوں نے اس پر فلم بنائی اور بین الاقوامی سطح پر اس پروجیکٹ کو بے پناہ مقبولیت اور بے شمار ایوارڈ ملے۔

دوسرا ہمارا پروجیکٹ تھا، جو پاکستان میں ہوا، پبلک سیکٹر سپورٹ کے ساتھ ہوا اور اس سے 50 ہزار غریب بچوں کو فائدہ پہنچا لیکن بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’2006 میں جب میں وزارت آئی ٹی کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فنڈ کی تشکیل میں مصروف تھا تب ہی اس پروجیکٹ کا آئیڈیا میں نے سوچا اور وزارت کے تعاون سے پہلا پائلٹ پروجیکٹ اسی سال جنوبی پنجاب میں کیا۔ اس کی کامیابی کے بعد پروجیکٹ کا دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلا دیا گیا۔ 2014 میں اس پروجیکٹ کو آخری دفعہ منعقد کیا گیا اور تب بھی میں ہی اس کا پروجیکٹ ہیڈ تھا۔‘ 

حاشر ارشاد کے مطابق اس پروگرام میں 50 ہزار غریب بچوں کی تربیت ہوئی۔ ڈھائی تین ہزار استاد بھی ٹرین دا ٹرینر پروگرام کے تحت تیار کیے گئے۔ پاکستان کی تمام بہترین یونیورسٹیوں تک یہ بچے پہنچے۔ پانچ ہزار سکالرشپس اس پروگرام کے ہی فیز ٹو کے تحت دیے گئے۔ اس کے علاوہ 12 سے 14 ہزار بچے اور سکالرشپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یونیورسٹیوں میں سیٹوں میں اضافہ ہوا۔ شہری اور دیہی علاقوں کے طلبا کے تناسب میں بہتری آئی۔‘ 

وہ بتاتے ہیں کہ اس پروگرام سے مستفید ہونے والے بچے اور بچیاں آج گوگل، مائیکروسافٹ، آئی بی ایم اور ٹیرا ڈیٹا جیسے بڑے اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ کتنوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سکالرشپس لیے۔ ہارورڈ، سٹینفورڈ، ییل اور براؤن جیسی یونیورسٹیوں سے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان کی اس کامیابی نے ان کی ہی نہیں، ان کے خاندان اور علاقوں کی قسمت بدل دی۔‘ 

اس پروجیکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حاشر ابن ارشاد کا کہنا تھا کہ ’سکالرشپ تو حکومتیں 70 سال سے دے رہی ہیں لیکن کسے دے رہی ہیں؟ غریب بچے کی ہمارے نزدیک تعریف کیا ہے؟ کیا ایک گھاس کاٹنے والے کا بچہ یا ایک مزدور کا بچہ ہزاروں روپے فیس دے کر انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر سکتا ہے؟ اور جب وہ استطاعت کی کمی کی وجہ سے بغیر ایک مخصوص تیاری کے، اس انٹری ٹیسٹ میں ناکام ہوتا ہے تو پھر ظاہر ہے وہ تو سکالر شپ کی دوڑ سے ویسے ہی باہر ہے۔ ایسے کسی پروگرام کے بغیر سکالر شپ سچ مچ غریب مگر قابل بچوں تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام ہم ذاتی سطح پر تو اب بھی کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے حکومتی سپورٹ کے بغیر اس کا وسیع پیمانے پر اطلاق ناممکن ہے۔

حاشر ابن ارشاد کے مطابق ’یہ کوئی بہت مہنگا پروگرام نہیں ہے۔ جس مالیت کے سکالر شپس اس وقت حکومت دے رہی ہے اس کا تو شاید پانچ فی صد ہی کافی ہو اسے پاکستان کی ہر تحصیل تک پہنچانے کے لیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اس پر حکومتی حلقوں کو قائل کرسکیں کہ یہ پروجیکٹ دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ پانچ سال سے ہماری نوجوان نسل اس پروجیکٹ کے ثمرات سے محروم ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل