شامی خواتین نو سالہ خانہ جنگی کا بدترین شکار

ایک حاملہ خاتون جن کی عمر 16 سال ہے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’بطور خواتین ہم اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔‘

20 نومبر 2019 کی اس تصویر میں شام کے کرد اکثریتی شہر  القمیشلی میں خواتین ایک 15 سالہ بچے کے جنازے میں رو رہی ہیں جو شہر پر بمباری میں زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہوگیا  تھا(اے ایف پی فائل)

’ہمارے گاؤں میں چیزیں پہلے سے بھی بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔‘ یہ کہنا تھا عامرہ (فرضی نام) کا۔ ’خواتین کے لیے حالات پہلے سے بھی خراب ہو چکے ہیں۔ ہمارے شوہر مستقل طور پر پریشان اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔ وہ اکثر ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور ہم پہ جسمانی تشدد کرتے ہیں۔ وہ ہمیں مارتے ہیں اور سیکس کے دوران بہت پرتشدد ہو جاتے ہیں۔‘

16 سالہ عامرہ حاملہ ہیں اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جنگ کے سائے میں گزرا ہے۔ وہ شمالی شام میں القمیشلی کے ایک گاؤں میں رہتی ہیں۔ ان کے پہلے ہی دو بچے ہیں۔ عامرہ کا کہنا ہے کہ شامی تنازعے سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

عامرہ جو حمل کے تیسرے ماہ میں، کا کہنا ہے: ’بطور خواتین ہم جنگ سے بہت بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ہمیں بہت پریشانیاں اور مشکلات کا سامنا ہے اور مرد ہمارے بارے میں سوچتے تک نہیں۔ وہ بس ہمیں بار بار حاملہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم حاملہ ہونے سے انکار نہیں کر سکتیں کیونکہ ہم طلاق سے خوفزدہ ہیں۔‘

عامرہ کی جانب سے ایسا اتوار کو اس وقت کہا گیا جب شامی خانہ جنگی کے نو سال پورے ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا سانحہ جس میں سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور جسے عالمی سطح پر موجودہ وقت کا بدترین انسانی بحران تسلیم کیا جا رہا ہے۔

عامرہ کا کہنا ہے: ’اس بحران نے کشیدگی اور عدم استحکام کی سطح بہت بڑھا دی ہے۔ ہم موجودہ صورت حال کے باعث مستقبل کے حوالے سے خدشات اور غیریقینی صورت حال کا شکار ہیں۔ ہم ایک پریشان کن معاشی بحران سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ ترکی کے حملے کے باعث ملازمتیں ختم ہونا ہے۔ ہم اپنے گاؤں سے بے دخل ہو چکے ہیں اور ہم عارضی پناہ گاہوں اور سکولوں میں رہ رہے ہیں جو کہ رہنے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ ہمیں پیٹ بھرنے اور باقی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے بہت کم ہی ملتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے: ’میں نے قریبی گاؤں میں رہنے والی اپنی کزن سے سنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے دوران زخمی ہوگئی تھیں اور ان کا شوہر ان سے بدبو آنے کی شکایت کرتا رہتا ہے، بار بار طلاق دینے کی دھمکی دیتا ہے اور ان کے قریب آنا پسند نہیں کرتا۔‘

عامرہ کی یہ بات اقوام متحدہ کے حکام کے اس بیان کی تائید کرتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں ایک بڑا مسئلہ سامنے آ رہا ہے کہ بیویوں کے obstetric fistula کے شکار ہونے کے بعد شوہر انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ یہ (obstetric fistula) خواتین کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں زچگی کے دوران برتھ کینال (وہ راستہ جس سے بچہ باہر آتا ہے) اور مثانے یا ریکٹم کے درمیان سوراخ ہونے کے باعث فضلے کا خارج ہوتا رہتا ہے جس سے خواتین کو زندگی بھر کے لیے شرمندگی اور سماجی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عرب ممالک کے لیے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی علاقائی ڈائریکٹر اور شام کے کئی دورے کرنے والی ڈاکٹر لوئے شبانے کا کہنا ہے: ’کچھ خواتین obstetric fistula کا شکار صحت کی سہولیات میں تاخیر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ شوہر اپنی بیویوں سے سیکس کرنے سے باز رہتے ہیں اور انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بار بار سامنے آنے والا مسئلہ ہے اور اس سے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’صنفی بنیادوں پر کیا جانے والا تشدد انسانی بحران کے ساتھ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔ کم عمری میں شادیاں اکثر خاندانوں کی جانب سے معاشی مسائل سے نمٹنے کا ایک حل سمجھا جاتا ہے تاکہ بیٹی کی حفاظت کا بوجھ اتارا جا سکے۔ کچھ شامی خواتین کی 18 سال کی عمر تک دو بار شادی ہو چکی ہوتی ہے۔ ان کے شوہر یا تو ہلاک ہو چکے ہیں یا وہ نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں لیکن کوئی آمدن یا معاونت نہیں ہوتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر لوئے شبانے کے مطابق: ’ان مشکلات کے اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں۔ جب آپ ایک 12 یا 15 سال کی لڑکی کی شادی کر دیتے ہیں تو وہ زندگی بھر اس سے متاثر ہوتی ہے۔ گولیوں کی آواز بند ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خواتین کی مشکلات بھی ختم ہو چکی ہیں۔ ہمیں خواتین اور لڑکیوں کا تب تک ساتھ دینا ہو گا جب تک وہ اپنے گھر واپس جا کر دوبارہ اپنی زندگی شروع نہیں کر لیتیں۔ اس بحران کے نو سال پورے ہونے کے باوجود یہ مسائل ابھی تک موجود ہیں۔‘

ڈاکٹر شبانے نے کہا کہ حاملہ خواتین معمول کے مطابق خطرات سے بھرپور سفر کرتی ہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ منزل پر باحفاظت پہنچیں گی یا یہ سفر ان کی موت پر ختم ہو گا۔

دسمبر سے اب تک نو لاکھ 60 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں 80 فیصد تعداد خواتین کی ہے جن میں سے تقریباً 25 ہزار حاملہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی دنیا بھر میں تولیدی صحت کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد میں اضافے نے شمال مشرقی شام کی پہلے سے خراب صورت حال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے جہاں پہلے ہی مقیم 40 لاکھ میں سے 28 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

تنطیم کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کو تولیدی صحت کی بنیادی سہولیات نہ ملنے اور صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے باعث زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں دائیوں کا کہنا ہے کہ شام میں خواتین کے خلاف تشدد ایک ’معمول‘ بن چکا ہے۔

بنیادی سہولیات سے عاری لیبر روم سے خوفزدہ خواتین سیزیرین کی خواہش مند ہیں اور تنظیم کے مطابق قبل از وقت پیدائش، حمل گرنے اور نومولود بچوں کے کمزور ہونے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

شمال مغربی شام میں کشیدگی نے تنظیم کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ یو این ایف پی اے اس وقت ایک کروڑ 30 لاکھ لوگوں کی مدد کر رہا ہے اور دسمبر 2019 سے اسے اپنے سات ڈیلیوری پوائنٹس بند کرنے پڑے ہیں جن سے 13 ہزار افراد کی مدد کی جا رہی تھی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین