لاک ڈاؤن: تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کے لیے خون کی شدید قلت

عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے اپیل کی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی لوگ انڈے، ڈبل روٹی اور کھانے پینے کی دیگر اشیا لینے باہر جاتے ہیں تو خون کا عطیہ دینے کیوں نہیں نکل سکتے؟

کراچی کے دس مراکز جہاں سندھ اور بلوچستان کے تھیلیسیمیا سے متاثر 50 ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں، وہاں خون مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور ڈونر نہیں آرہے۔(تصویر: سوشل میڈیا)

کراچی میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کا علاج کرنے اور انہیں خون مہیا کرنے والے ادارے عمیر ثنا فاؤنڈیشن میں نواب شاہ شہر سے تعلق رکھنے والی تھیلیسیمیا سے متاثر نایاب زیر علاج ہیں، لیکن کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن کے نتیجے میں خون کی شدید قلت ہے۔

فاؤنڈیشن کے سیکریٹری اور ہیماٹولوجسٹ (ماہرِ امراض خون) ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری کے مطابق نایاب کے خون میں ہیموگلوبن کی سطح صرف 3.1 رہ گئی ہے اور انہیں زندہ رکھنے کے لیے مسلسل خون لگانا ضروری ہے، مگر خون کی شدید قلت کے باعث نایاب جیسے دیگر بچوں کی علاج اور خون دینے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث خون کا عطیہ دینے والے افراد نہیں آرہے جس کی وجہ سے خون کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ہم تکنیکی زبان میں خون کے سٹاک کے لیے ریڈ الرٹ کی ٹرم استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کچھ دنوں میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے رکھا خون ختم ہونے کو ہے، مگر اس وقت ہم ریڈ الرٹ کی حد کو بھی پار کرچکے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: 'پاکستان بھر کے مراکز میں خون ختم ہوچکا ہے، مگر یہ بات مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کراچی کے دس مراکز جہاں سندھ اور بلوچستان کے تھیلیسیمیا سے متاثر 50 ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں، وہاں خون مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور ڈونر نہیں آرہے، جس سے ان بچوں کی مشکلات میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔'

پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا گیا لاک ڈاؤن جاری ہے۔ دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں 15 دن کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں گزشتہ روز مزید سختی کردی گئی ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کے ساتھ آن لائن ٹرانسپورٹ ایپلیکیشن بشمول اوبر، کریم، بائیکیا اور دیگر بھی بند ہیں اور سڑکوں پر پولیس اور رینجرز کی جانب سے ہر گاڑی اور دیگر سواریوں سے پوچھ گچھ کے باعث شہر میں ہو کا عالم ہے۔

اس صورت حال میں خون کا عطیہ دینے والا عمل سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کیوں کہ خون کا عطیہ دینے والے افراد ہسپتال اور خون لینے والے مراکز تک نہیں پہنچ رہے ہیں جس سے کراچی میں موجود تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کا علاج کرنے اور انہیں خون دینے کا کام کرنے والے دس بڑے مخصوص مراکز پر خون مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔

تھیلیسیمیا کے لیے کام کرنے والے کراچی کے ایک اور بڑے ادارے فاطمید فاؤنڈیشن کی عہدیدار سارا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے تین طریقوں سے خون جمع کیا جاتا ہے۔ یا تو مریض کے لواحقین کسی جاننے والے کو ساتھ لاتے ہیں اور وہ خون عطیہ کرتے ہیں، یا کچھ لوگ خود ہسپتال آکر خون کا عطیہ کرتے ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم شہر میں سڑک پر موبائل کیمپ لگاتے ہیں اور لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ خون عطیہ کریں، مگر لاک ڈاؤن کے باعث تینوں طریقے متاثر ہوئے ہیں اور ہمیں خون کی کمی کا سامنا ہے۔'

 تھیلیسیمیا ایک پیدائشی بیماری ہے اور اس بیماری میں مبتلا بچوں کا جسم خون بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس بیماری کی تین اقسام بشمول تھیلیسیمیا مائنر، تھیلیسیمیا انٹر میڈیا اورتھیلیسیمیا میجرہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر کے ساتھ پیدا ہونے افراد نارمل زندگی گذارتے ہیں، لیکن تھیلیسیمیا میجر سے متاثر فرد اگر کسی نارمل فرد سے بھی شادی کرلے تو پیدا ہونے بچوں میں زیادہ امکان ہے کہ وہ تھیلیسیمیا میجر ہوں جو خون قدرتی طور پر نہیں بنا پاتے اور انہیں زندہ رکھنے کے لیے کچھ دنوں بعد کسی اور کا خون لگانا ضروری ہوتاہے۔

 سندھ پریوینشن اینڈ کنٹرول آف تھیلیسیمیا ایکٹ 2013 کے تحت شادی سے پہلے دولہا اور دلہن کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ کروانا قانونی طور پر ضروری ہے۔  

ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کی تعداد ایک لاکھ ہے جو دنیا بھر میں ایک ہی ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان میں سے 23 ہزار بچے صرف سندھ کے ہیں۔  

'پاکستان کے ان ایک لاکھ بچوں کی اکثریت کو 17 دن بعد خون لگانا ضروری ہوتا ہے، مگر ان میں سے دس فیصد یعنی دس ہزار بچوں کو سات دنوں میں خون لگتا ہے جبکہ دو فیصد یا دو ہزار بچوں کو ہر دو دن بعد خون دینا ضروری ہوتا ہے۔'

سندھ میں تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کے علاج اور انہیں باقاعدگی سے خون دینے کے لیے 13 اضلاع میں 27 مراکز قائم ہیں جو کراچی، حیدرآباد، ایک سکھر، بدین، شہید بینظیرآباد اور میرپورخاص شمال میں ہیں۔

کراچی میں تھیلیسیمیا کے سب سے زیادہ مراکز ہیں اور ان مراکز میں سے اکثر مفت علاج مہیا کرتے ہیں۔ کراچی میں نہ صرف صوبے کے دیگر اضلاع بلکہ بلوچستان سے بھی تھیلیسیمیا کے بچوں کی بڑی تعداد علاج کے لیے آتی ہے۔

تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کے والدین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاج کی رقم کے علاوہ مخصوص مدت بعد اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے خون کا حصول ان کے لیے ایک دشوار مسئلہ ہوتا ہے جس کے باعث تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کے والدین کئی چھوٹے شہروں سے کراچی منتقل ہوگئے ہیں جہاں ان کے بچوں کا مفت علاج ہونے کے ساتھ خون کی دستیابی بھی آسان ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے عوام سے اپیل کی ہے کہ لوگ خون کا عطیہ دینے آئیں ورنہ تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کی حالت خراب ہوسکتی ہے۔ 'لاک ڈاؤن کے دوران بھی آپ انڈے، ڈبل روٹی اور کھانے پینے کی دیگر اشیا لینے باہر جاتے ہیں تو خون کا عطیہ دینے کیوں نہیں نکل سکتے؟'

زیادہ پڑھی جانے والی صحت