سارا اٹلی سالواڈور ڈالی کی پینٹنگ بن گیا ہے

کرونا وائرس کی وبا تلے دبے اٹلی میں ایک پاکستانی طالبہ پر کیا گزری؟

ڈالی کی اس پینٹنگ کا شمار 20ویں صدی کی مشہور ترین پینٹنگز میں ہوتا ہے (پبلک ڈومین)

’نوشین تم نے کارنیول کے لیے کیسا ماسک خریدا ہے؟‘ ایڈولفو نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھ سے پوچھا تھا۔

’ماسک؟ مگر میں نے تو ابھی تک ماسک کے بارے میں سوچا ہی نہیں؟‘ میں ایک دم چونک گئی۔ ’اچھا یہ بتاؤ ماسک کہاں سے خریدنا ہے؟‘

’یہاں قریب ہی ایک چینی پاشندے کی دکان ہے، وہاں ماسک با آسانی دستیاب ہوں گے۔‘ اس نے مجھے کچھ انگریزی اور کچھ اطالوی میں سمجھانے کی کوشش کی اور پھر موبائل میں گوگل میپ پر جگہ کی نشاندہی کر دی تاکہ میں با آسانی پہنچ سکوں۔

’مگر یہ تو بتاؤ تم اور لینو کون سا ماسک پہنو گے؟‘ میں نے پوچھا۔

’ہم دونوں ’سالواڈور ڈالی‘ کا ماسک لگائیں گے، لینو کے پاس پہلے سے رکھے ہوئے ہیں۔‘ ایڈولفو نے لینو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔

سالواڈور ڈالی۔۔۔۔۔واہ!‘ بےاختیار میرے منہ سے نکلا۔ ڈالی میرے پسندیدہ ترین مصوروں میں سے ایک ہے۔

ایڈولفو اور لینو بھی اٹلی کی یونیورسٹی کیتی پسکارا کی اسی تحقیقی لیبارٹری کا حصہ ہیں جس میں دو ماہ قبل میں نے کام کا آغاز کیا تھا۔ دو دن قبل ہی لیب میں ایک رنگین اشتہارآویزاں کیا گیا تھا کہ 20 فروری کو شام ساڑھے پانچ بجے پروفیسر فسولو نے ’ییلوہاؤس‘ میں تمام پی ایچ ڈی طالب علموں کو مدعو کیا ہے۔ اشتہار میں لباس کے لیے کارنیول کے انداز کا ذکر کیا گیا تھا۔ میں نے اسی وقت آس پاس موجود لوگوں سے پوچھا۔ یہ کارنیول کا لباس کیسا ہوتا ہے؟

’اپنی پسند کا کوئی بھی ماسک چہرے پر سجا لینا اور بس،‘ جواب ملا۔

اور بس پھر کارنیول سے دو دن قبل میں اسی دکان پر موجود تھی جس کا پتہ ایڈولفو نے بتایا تھا۔ کئی ماسک دیکھے اور بیٹ مین کا ماسک خرید لیا، سیاہ رنگ کے اس ماسک پر باریک کام تھا، گویا خوبصورت اور نفیس کڑھائی محسوس ہو رہی تھی۔ ایڈولفو اور لینو نے بعد میں اسے بیٹ ویمن کا نام دیا تھا۔

کارنیول کے دن بھی میں ان دو ساتھیوں کے ہمراہ گئی کیونکہ اس سے قبل میں نے ییلو ہاؤس نہیں دیکھا تھا تو یہ ذمے داری بھی انہی کے سر لگی۔ لینو نے بتایا کہ اس جگہ کو ییلو ہاؤس، بلڈنگ پر قدرے نمایاں پیلے رنگ کی وجہ سے کہتے ہیں۔

کارنیول شروع ہوا اور سب لوگوں نے چہرے پر ماسک سجا لیے۔ میں لینو اور ایڈولفو کے انتخاب کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔ نجانے ڈالی کے حیران پریشان اور قدرے تیکھے نقوش والاماسک واقعی پرکشش تھا یا پھر میں ذاتی طور پر اس ہسپانوی مصور سے متاثر ہونے کی وجہ سے ایسا محسوس کر رہی تھی۔

یہ فنکار تھا بھی کچھ ایسا۔ نت نئی چیزیں پینٹ کرتا تھا جو حقیقت سے دور اور خوابوں سے قریب تر ہوتی تھیں۔ اس کی تمام تر پینٹنگز زندگی میں بیتنے والے سچ اورخیال کا ایسا امتزاج ہیں جنھیں تصور تو کرسکتے ہیں مگر کھلی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ ہاں مگر ان شاہکاروں کو چھو کر ان لمحوں کو محسوس کر سکتے ہیں جن میں مصور نے انہیں تخلیق کیا۔

20ویں صدی کے اس مصور کے فن پاروں میں چیزیں حقیقت سے ماورا حرکتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ کبھی گھڑی کو پگھلا کر دکھاتا ہے، کبھی ٹیلیفون پر ہینڈ ریسیور کی جگہ بڑا سا جھینگا رکھ دیتا ہے، کبھی زرافے کو جلتا ہوا دکھا کر مرد سے تشبیہ دے دی اور وہیں دو عورتوں کو سہاروں کے تحت کھڑا کر دیا۔ ’ڈالی‘  نیورولوجسٹ سگمنڈ فرائڈ سے متاثر تھا۔ اس کا شماران مصوروں میں ہوتا ہے جنھیں surrealist کہا جاتا ہے جو 20 ویں صدی میں ابھرنے والی ادب کی ایک تحریک تھی اور بعد میں مصوری کا بھی حصہ بنی۔ اس میں لاشعور کو شعور سے جوڑا جاتا ہے۔

 ڈالی کی مشہور ترین پینٹنگ The persistence of memory ہے جسے ہم ’یادداشت کی استقامت یا یکسوئی‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس پینٹنگ میں گھڑیوں کو پگھلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ لوگوں نے جب اسے آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت سے تشبیہ دی تو ڈالی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض سورج میں پگھلتے پنیر کی ایک شباہت ہے۔ پینٹنگ دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وقت پگھل رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماسک کو دیکھتے ہوتے ڈالی کا بھرپور تعارف میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا، اسے فی الوقت ذہن سے جھٹکا کیونکہ کارنیول کا حصہ بھی بننا تھا۔ پروفیسر فسولو بہترین میزبان ثابت ہوئے۔ طالب علموں میں گھل مل کر اساتذہ بھی انہی کا حصہ محسوس ہو رہے تھے۔ رخصت کے وقت پیر کے دن لیب میں ملاقات کا کہہ کر سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔

پیر کے اس دن کا آج تک انتظار ہے۔ اٹلی میں کرونا وائرس کے منڈلاتے خدشات کے پیش نظر جامعات میں تدریسی عمل روک دیا گیا۔ حالات بگڑے۔ پہلے بری طرح سے آفت زدہ شمالی علاقہ مہر بند کر دیا گیا۔ چند دنوں بعد پتہ چلا اطالوی وزیر اعظم نے ہنگامی پریس کانفرنس میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔

مجھے آج محسوس ہو رہا ہے کہ سالواڈور ڈالی کے منفرد خدو خال والے وہ ماسک صرف لینو اور ایڈولفو نے ہی نہیں بلکہ تمام اطالوی باشندوں نے پہن رکھے ہیں۔ اٹلی کچھ خواب، کچھ حقیقت کی کیفیت میں ہے، جیسے پورا ملک سالواڈور ڈالی کی پیٹنگ بن گیا ہے۔ کوئی چیز اپنی جگہ پر نہیں لگتی، ہر چیز کسی ڈراؤنے خواب کی طرح غیر حقیقی اور روزمرہ کے حالات و واقعات سے ماورا محسوس ہوتی ہے، جیسے ریئلزم نے جون بدل کر سریئلزم کا ماسک پہن لیا ہے۔  

 اور دور کہیں کھڑا ڈالی سپین سے آواز دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے، ’دیکھو، وقت سورج تلے کسی پنیر کی طرح پگھل رہا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ