کرونا وائرس: کشمیری خاتون فیشن ڈیزائنر سے ماسک میکر بن گئیں

سری نگر میں 'ہینگرز ۔۔۔ دی کلوزٹ' کے نام سے خواتین کے ملبوسات کا ایک مشہور سٹور چلانے والی مفتی سعدیہ کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو ضرورت کے وقت معاشرے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔

مفتی سعدیہ موجودہ میڈیکل ایمرجنسی میں بغیر کسی منافع کے ماسک اور پی پی ایز بنانے میں مصروف ہیں۔(تصویر: باسط زرگر)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرونا (کورونا) وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور اب تک سامنے آنے والے پانچ درجن مصدقہ کیسز میں سے دو مریضوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔

پوری وادی میں فیس ماسک سمیت دیگر ذاتی حفاظتی سامان کی شدید قلت پائی جارہی ہے۔ ایسی صورت حال میں کئی نوجوان اور تنظیمیں سامنے آئی ہیں، جنہوں نے میڈیکل ایمرجنسی کی اس گھڑی میں لوگوں کو آسانی فراہم کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے مضافاتی علاقے راولپورہ سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ معروف فیشن ڈیزائنر مفتی سعدیہ نے بازاروں میں کرونا وائرس سے بچنے کے لیے درکار اہم چیزوں کی عدم موجودگی اور بلیک مارکیٹنگ کو دیکھنے کے بعد عام لوگوں اور ہیلتھ ورکرز کے لیے ماسک اور پی پی ایز بنانے شروع کردیے ہیں۔

مفتی سعدیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس صورت حال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ میڈیکل ایمرجنسی میں بغیر کسی منافع کے ماسک اور پی پی ایز بنانے میں مصروف ہیں، جس سے انہیں قلبی سکون اور خوشی ملتی ہے۔

فیشن ڈیزائنر سے ماسک میکر بننے کے متعلق پوچھے جانے پر مفتی سعدیہ کا کہنا تھا: 'میں اپنے کاریگروں اور گھر والوں کے لیے ماسک خریدنے نکلی تھی لیکن بازار میں دیکھا کہ ایک تو ماسک کی شدید قلت ہے دوسرا یہ کہ غیر معیاری ماسک مہنگے داموں فروخت کیے جارہے تھے۔ میں نے گھر پہنچنے پر اپنے کاریگروں سے بات کی کہ کیوں نہ ہم معاشرے کے لیے کچھ کریں، جس کے بعد ہم نے فوراً ٹرپل لیئر ماسک بنانا شروع کردیے'۔

مفتی سعدیہ، جو سری نگر میں 'ہینگرز ۔۔۔ دی کلوزٹ' کے نام سے خواتین کے ملبوسات کا ایک مشہور سٹور چلاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو ضرورت کے وقت معاشرے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔

صاف ستھرے ماحول میں بنائے جانے والے یہ ماسک وہ عام لوگوں کو مفت فراہم کرنے کے علاوہ این جی اوز کو بھی فراہم کر رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا: 'کئی این جی اوز نے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ کشمیر امریکن ہیومینیٹی سوسائٹی کو میں اب تک ایک ہزار ماسک تیار کرکے دے چکی ہوں۔ میں نے اب تک تقریباً دو ہزار ماسک تیار کیے ہیں۔ کچھ رضاکاروں کے ساتھ مل کر میں نے بعد میں پی پی ایز بھی بنانے شروع کردیے اور اسی این جی او سے مجھے تین سو پی پی ایز بنانے کا آرڈر مل چکا ہے'۔

کشمیر میں لوگوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں سے جاری سخت ترین لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کے لیے سڑکوں پر تعینات سکیورٹی فورسزکے اہلکار بغیر ماسک پہنے راہگیروں کو مارنا پیٹنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کارروائی کو بازاروں سے ماسکس غائب ہوجانے کی ایک بڑی وجہ مانا جا رہا ہے۔

پی ایچ ڈی سکالرز بھی پیش پیش

دوسری جانب جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں ضلعی ہیڈکوارٹر سے 12 کلو میٹر دوری پر واقع چھوٹی پورہ مانی ہل نامی گاؤں میں بلال احمد ملہ نامی ایک پی ایچ ڈی سکالر کتابوں کا مطالعہ چھوڑ کر ماسک بنانے میں مصروف ہیں۔

بلال احمد، جو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کی ایک یونیورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'گذشتہ دس دنوں کے دوران میں پانچ سو ماسکس بنا چکا ہوں، جنہیں میں مفت تقسیم کررہا ہوں۔ گھر میں بیکار بیٹھا تھا۔ جب دیکھا کہ یہاں تو ماسکس کی شدید قلت ہے تو سوچا کیوں نہ معاشرے کے لیے میں بھی تھوڑا کچھ کرلوں۔ چونکہ گھر میں سلائی مشین تھی تو میں نے ماسک بنانے کے لیے درکار چیزیں خرید کر ضرورت مندوں کے لیے ماسک بنانے شروع کردیے'۔

تاہم کشمیر میں اس وقت جس فلاحی ادارے کو بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے وہ 'احساس انٹرنیشنل' ہے اور کچھ لوگ اس کے کام سے بے حد متاثر ہوکر اسے کشمیر کی 'ایدھی فاؤنڈیشن'  کا نام دے رہے ہیں۔

احساس انٹرنیشنل کے جنرل سکریٹری حکیم محمد الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے ادارے نے ماسکس اور پی پی ایز بنانے کے لیے 350 ماہر کاریگروں کی خدمات حاصل کی ہیں اور ہر روز پانچ ہزار ماسکس اور 800 پی پی ایز بنائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا: 'حکومت نے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کردیے اور کہا کہ ہمارے پاس وسائل موجود نہیں ہیں۔ ہم نے صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنی ٹیم کو متحرک کردیا۔ ماسکس اور پی پی ایز بنانے کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھائی جارہی ہے۔ ہمارا واحد ایسا ادارہ ہے جسے کووڈ کمیٹی کشمیر سے پی پی ایز تیار کرنے کی اجازت ملی ہے'۔

حکیم محمد الیاس کا مزید کہنا تھا: 'ہم یہ ماسکس اور پی پی ایز ہسپتالوں کے علاوہ لازمی خدمات سے وابستہ دفاتر کو بھی فراہم کررہے ہیں۔ ہم یہ چیزیں بنانے کے لیے ہائی کوالٹی میٹریل جیسے پولی پروپلین 90 تا 120 جی ایس ایم کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم ہسپتالوں، دفاتر اور دیگر ضرورت مندوں کو یہ چیزیں مفت فراہم کررہے ہیں، تاہم انتظامیہ نے ہمیں ٹرانسپورٹ اور دیگر کچھ سہولیات فراہم کی ہیں'۔

کشمیر میں طبی عملے اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت نوجوانوں اور فلاحی اداروں کا سامنے آنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب وبا عالمی سطح پر پھیلی ہو تو ایسے میں کسی سے مدد کی امید رکھنا غلط ہے۔

ڈاکٹر سہیل حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'وقت کی ضرورت ہے کہ طبی عملہ، انتظامیہ، فلاحی ادارے اور عام لوگ بالخصوص نوجوان مل جل کر کام کریں اور دوسروں کی جانیں بچانے کے ساتھ ساتھ اپنا بھی خیال رکھیں۔ جس طرح سے فلاحی ادارے اور نوجوان سامنے آئے ہیں وہ قابل تحسین ہے'۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین