بھارت : دہلی کا تبلیغی اجتماع کرونا وائرس کی بحث کا موضوع کیوں؟

یہ اجتماع ہفتہ 21 مارچ کو دہلی میں لاک ڈاؤن کے اعلان سے دو روز قبل منعقد کیا گیا تھا، جس میں لگ بھگ 1750 افراد شریک تھے۔

یہ اجتماع ہفتہ 21 مارچ کو دہلی میں لاک ڈاؤن کے اعلان سے دو روز قبل منعقد کیا گیا تھا۔ (فائل تصویر: اے پی)

نئی دہلی پولیس نے ایک مسلمان تبلیغی شخص کے خلاف ابتدائی الزامات کی فہرست جاری کر دی ہے، جن کی بنیاد بھارتی دارالحکومت کی ایک مسجد میں مذہبی اجتماع منعقد کرنے اور ملک بھر میں سامنے آنے والے کرونا کیسز کا تعلق اس اجتماع سے ثابت ہونے پر رکھی گئی ہے۔

مانا جا رہا ہے کہ اس اجتماع میں لگ بھگ 1750 افراد شریک تھے۔ یہ اجتماع تبلیغی جماعت کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا اور اس میں 200 غیر ملکیوں سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔

یہ اجتماع ہفتہ 21 مارچ کو دہلی میں لاک ڈاؤن کے اعلان سے دو روز قبل منعقد کیا گیا تھا۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے اس اجتماع کے 36 گھنٹے بعد قوم سے اپنے خطاب میں کرونا کے خلاف جنگ کو عالمی جنگ قرار دیتے ہوئے لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ سماجی دوری کے اصول پر عمل کرتے ہوئے 'ہجوم اور اجتماعات' سے دور رہیں۔

اجتماع کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے محکمہ صحت کے حکام سے مسلسل تعاون کیا ہے لیکن جب شہر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تو بھی نظام الدین کے مغربی حصے میں موجود تبلیغی جماعت کے مرکز میں سینکڑوں افراد موجود تھے۔

منگل کو سامنے آنے والی ابتدائی فرد جرم (جو کہ بھارت میں فرسٹ انسی ڈینٹ رپورٹ یعنی ایف آئی آر کہلاتی ہے) درج کی گئی۔ اس میں کالونیل دور کے وبائی امراض ایکٹ 1897 کے تحت تبلیغی جماعت کے خطیب مولانا سعد اور باقی منتظمین کے خلاف وبا کے دوران ایک بڑا اجتماع منعقد کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

 اس پورے علاقے کو اب باہر سے داخلے کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ پولیس نے 1500 سے زائد افراد کو یہاں سے قرنطینہ سینٹرز میں منتقل کر دیا ہے۔

دہلی کے وزیراعلیٰ ارویند کیجریوال کا کہنا ہے کہ منتقل کیے گئے افراد میں سے 441 میں کرونا وائرس کی علامات پائی گئی ہیں اور انہیں بسوں میں براہ راست ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

ارویند کیجریوال نے صحافیوں کو بتایا کہ  'دہلی کے 97 کیسز میں سے 24 کا تعلق تبلیغی مرکز سے ہے۔'

دوسری ریاستوں کے حکام بھی اس اجتماع میں شرکت کرنے والے افراد کو تلاش کر رہے ہیں اور اب تک ریاست تلنگانہ، تامل ناڈو اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد، جو اس اجتماع میں شریک تھے، میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تبلیغی مرکز سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی ہلاکت بھی ہو چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ارویند کیجریوال کا کہنا تھا کہ اجتماع کا انعقاد کرنا 'ایک غیر ذمہ دارانہ عمل تھا۔' انہوں نے کہا: 'اس بیماری نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گردوارے بند ہیں۔ لوگ نماز پڑھنے مساجد میں نہیں آرہے بلکہ گھر پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ مکہ اور ویٹیکن کی عبادت گاہیں خالی ہیں۔ ایسے موقعے پر اتنے بڑے اجتماع کا انعقاد غلط تھا۔'

21 روزہ قومی لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے کے اختتام پر بھارت میں مذہبی بنیادوں پر موجود کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کیا جانے والا یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے طویل لاک ڈاؤن ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان میں چار گھنٹوں کے نوٹس کے بعد دوسرے شہروں سے آنے والے بے روزگار مزدوروں کی بہت بڑی تعداد اپنے علاقوں کو واپس روانہ ہو گئی تھی، جن میں سے اکثر سینکڑوں میل پیدل چل کر اپنے علاقوں کو واپس پہنچے کیونکہ لاک ڈاؤن کے باعث ٹرانسپورٹ بند تھی۔ ان میں سے درجنوں افراد سڑکوں پر ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کئی افراد نے نظام الدین میں ہونے والے اجتماع کے بعد بھارت میں کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیا ہے۔ اس موضوع پر ٹوئٹر پر ٹرینڈ کے علاوہ کارٹون اور میمز بھی پوسٹ کی جاتی رہیں جو ہزاروں بار شیئر کی جا چکی ہیں۔

کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے سرگرم کارکن خرم پرویز نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی پر لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی بدنظمی پر تنقید کے بعد سے انتہا پسند ہندوؤں (قوم پرست ہندوؤں) نے مسلمانوں کو آسان ہدف بنا لیا ہے۔ انہوں نے کہا: 'یہ دیکھنے کی بجائے کہ بھارت کیسے اس مسئلے کو بہتر انداز میں حل کر سکتا ہے، مسلمانوں اور غریبوں کے خلاف نفرت کو مزید طاقت دی جا رہی ہے۔'

منگل کو جاری ہونے والے بیان میں نظام الدین مرکز کا کہنا تھا کہ اس اجتماع کے منعقد کرنے کا فیصلہ ایک سال قبل کیا گیا تھا اور لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد 'اچانک ٹرینوں کی بندش ہونے کی وجہ سے ملک بھر سے آئے ہوئے شرکا 21 مارچ سے مرکز کی حدود میں ہی پھنس گئے۔'

مرکز کے مطابق پولیس نے 24 مارچ کو مرکز خالی کرنے کا حکم دیا تھا اور منتظمین نے گاڑیوں کے ذریعے لوگوں کو نکالنے کی اجازت مانگی تھی تاکہ شرکا کو اپنے علاقوں تک لے جایا جا سکے۔ ابھی تک اس درخواست کا جواب آنا باقی ہے۔

مرکز کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ 'اس تمام واقعے کے دوران نظام الدین مرکز نے قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی اور مختلف شہروں سے آنے والے شرکا سے رحم دلی اور مناسب انداز میں پیش آئے۔ کووڈ 19 کے موجودہ چیلنج میں مرکز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کی جانب سے جاری کیے جانے والی ہدایات پر مستقبل میں بھی عمل کیا جاتا رہے گا۔'

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا