چینی رپورٹ کا فرانزک جائزہ: کیا حتمی نتائج بدل سکتے ہیں؟

معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کے مطابق آٹے اور چینی کے بحران پر انکوائری کمیشن تو ضرور بنا تھا لیکن یہ کریمنل انکوائری نہیں تھی کیونکہ اس کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا نہ پرچہ کٹا۔

(اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ آٹے چینی کی رپورٹ پر وہ کسی بھی کارروائی سے پہلے اعلیٰ سطحی کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج کا منتظر ہیں۔25 اپریل تک فرانزک نتائج مرتب کرلیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان نتائج کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ (لابی) عوامی مفادات کا خون کرکے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔'

سرکاری حکام کے مطابق تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے فریقین کو سوال نامے بھیجے گئے ہیں جس کے جوابات انہوں نے پچیس اپریل تک جمع کروانے ہیں۔ پچیس اپریل تک فرانزک آڈٹ بھی مکمل ہو جائے گا، بعد ازاں حتمی نتائج سامنے آئیں گے اور اصل ذمہ داروں کا تعین ہو گا۔

ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق آر وائی کے گروپ میں خسرو بختیار کے بھائی اورمونس الٰہی کے شیئرز ہیں نیز جے ڈی ڈبلیو گروپ جہانگیر ترین کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چینی ایکسپورٹ ہوتی رہی اور اس پرسبسڈی بھی دی جاتی رہی۔ لیکن یہاں پر تکنیکی و قانونی سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔

کیا سبسڈی لینا قابل سزا ہے یا جرم کے زمرے میں آتا ہے؟

 ان قانونی نکات کو سمجھنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ سے گفتگو کی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آٹے اور چینی کے بحران پر انکوائری کمیشن تو ضرور بنا تھا لیکن یہ کریمنل انکوائری نہیں تھی کیونکہ اس کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا نہ پرچہ کٹا۔ انہوں نے کہا کہ ایک واقعاتی رپورٹ ہے کہ درحقیقت کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانونی نکتہ یہ ہے کہ کیا سبسڈی لینا جرم ہے؟ اگر صوبائی حکومت نے ایک سکیم کا اعلان کیا ہے کہ جو ادارہ یا شخص شوگر برآمد کرے گا اُسے سبسڈی دی جائے گی تو اس شخص نے تو حکومتی سکیم پر عمل کیا ہے تو پھر اس میں جُرم کہاں بنتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بظاہر یہ جرم نہیں ہے۔

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سکیم کیوں بنی ؟ سکیم اچھی تھی یا بری تھی لیکن یہ سب سیاسی نوعیت کے سوالات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سکیم بنائی تو پھر یہ معاملہ سامنے آنا چاہیے۔'

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سبسڈی لینے والا اُس صورت میں مجرم ہو گا اگر اُس نے سبسڈی لینے کے لیے حکومت سکیم میں جھوٹے کاغذات جمع کروائے ہوں اور درحقیقت برآمد نہ کی ہو تو پھر یہ فراڈ کا مقدمہ بنے گا۔'

انہوں نے کہا کہ سبسڈی دینا صوبائی حکومت کا کام تھا اور برآمد کی اجازت وفاقی حکومت نے دی۔ تو بحران کی صورت حال جانتے ہوئے یہ فیصلے کیوں ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ ذمہ داری فوڈ منسٹری پہ عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے برآمد کے لیے زمینی حقائق مد نظر رکھے یا نہیں۔

فرانزک آڈٹ کیا ہے اور اُس پہ  قانونی کارروائی کیا ہو گی؟

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فرانزک آڈٹ میں ہر چیز کا بغور جائزہ لیا جاتاہے کہ جو رپورٹ مرتب ہوئی ہے اس میں کوئی ابہام تو نہیں اس کے علاوہ تمام زمینی حقائق باریک بینی سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرانزک آڈٹ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر مل مالکان نے برآمدات کیں ہی نہیں اور صرف پیسہ کمانے کے لیے سبسڈی لی ہے تو پھر مقدمے بنیں گے۔ لیکن اگر فرانزک آڈٹ میں یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ مل مالکان نے حکومتی سکیم کے مطابق برآمد کی اور سبسڈی لی ہے تو پھر یہ جرم کے زمرے میں نہیں آتا۔ ایسی صورت میں مل مالکان پر کوئی مقدمہ نہیں بنے گا اور نہ کوئی قانونی کارروائی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں سیاسی معاملات رہیں گے لیکن قانونی معاملہ نہیں رہے گا۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ فرانزک آڈٹ کے بعد صورت حال مختلف ہو سکتی ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جب کہ دوسری جانب معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ فرانزک جائزے میں ایک،ایک شوگر مل میں جاکر کمیشن شوگر کی پیداوار، پیداواری لاگت، گنے کی قیمت خرید اور مل کے مالک کے خرچ اور عوام تک کتنی قیمت میں چینی پہنچتی ہے اور برآمد پر کتنا فیصد کمیشن ہوتا تھا وہ حقائق عوام کے سامنے لائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'یقیناً اس رپورٹ کے فرانزک کے بعد جن ذمہ داروں کا تعین ہوگا وزیراعظم آئین اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کریں گے اور وہ کارروائی ہوتے ہوئی نظر آئے گی۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'وزیراعظم نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور انکوائری کا عملی طور پر جائزہ لینے کے بعد تمام ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔'

واضح رہے کہ پاکستان میں رواں سال چینی کے بحران کی رپورٹ جو کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے مرتب کی ہے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر خان ترین، وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار کے رشتہ دار اور اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے مونس الہٰی کو اس بحران سے مالی فائدہ پہنچا ہے۔

رواں برس فروری میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں چینی کے بحران پر پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

اس معاملے پر جہانگیر ترین سے رابطہ کر کے اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے میسجز کا جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ تحقیقات کسی حتمی مرحلے پر پہنچنے سے پہلے ہی کابینہ میں بھی رد و بدل کر دیا گیا ہے۔ ترجمان وزیراعظم ہاؤس کے مطابق فخر امام کو وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی بنا دیا گیا ہے جب کہ خسروبختیار کو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور تعینات کر دیا گیا۔ حماد اظہر وفاقی وزیر صنعت و پیداواربنا دیے گئے ہیں اور اعظم سواتی وفاقی وزیر انسداد منشیات تعینات ہوئے ہیں۔ ترجمان وزیر اعظم ہاؤس کے مطابق ماہر قانون بابر اعوان کو مشیر برائے پارلیمانی امور بنایا گیا اور خالد مقبول صدیقی کا استعفی قبول کرتے ایم کیو ایم کے امین الحق کو وفاقی وزیر برائے ٹیلی کام تعینات کردیا۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے مشیر شہزاد ارباب کو عہدے سے برطرف کردیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان