کیا لاک ڈاؤن سے محکمہ موسمیات کے نظام پر اثر پڑے گا؟

محکمہ موسمیات کے مطابق سماجی دوری کو یقینی بنانے کے لیے عملے کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے نتائج ملک کے موسمیاتی پیش گوئیوں اور انتباہات پر ظاہر ہو سکتے ہیں۔

راولپینڈی میں یکم اپریل کو  بارش کے دوران بجلی کے مناظر (اے ایف پی)

پاکستان میں مہلک کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے پھیلاؤ سے دوسرے شعبوں کی طرح موسمیات سے متعلق مشاہدات، انتباہات اور پیشن گوئیوں کے نظام کی صلاحیت بھی متاثر ہو سکتی ہے اور ماہرین موسمیات جاری لاک ڈاؤنز کو اس نظام کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔

اسلام آباد میں محکمہ موسمیات کے چیف میٹریولوجسٹ عظمت حیات خان کے مطابق لاک ڈاؤن کی طوالت موسم اور آب و ہوا کی معلومات اکٹھی کرنے والی مشینوں اور آلات میں مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے خصوصاً ملک کے دور دراز علاقوں میں نصب مشینوں اور آلات کی نشاندہی کی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے اس موضوع پر بات چیت میں ان کا کہنا تھا: 'باقاعدگی سے دیکھ بھال کی عدم موجودگی ان آلات اور مشینوں کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے۔'

یاد رہے کہ کرونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے پاکستان میں تقریباً چار ہفتوں سے جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے جس کے باعث اکثر سرکاری ادارے سکیلیٹن سٹاف کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

محکمہ موسمیات ہی کے سینیئر اہلکار فاروق ڈار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوشل ڈسٹننسنگ یا سماجی دوری کو یقینی بنانے کے لیے ان کے محکمے میں بھی سٹاف کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تین اہلکار تعینات ہوا کرتے تھے وہاں اب ایک سے کام لیا جا رہا ہے۔

فاروق ڈار کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات اور اس کے ذیلی اداروں کی گراؤنڈ بیسز پر اکثر مشینیں آٹومیٹک (خودکار) ہیں اور ان میں نقص کے پیدا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مشین میں مختلف وجوہات کی بنا پر کسی بھی وقت خرابی کا پیدا ہونا خارج از امکان قرار نہیں دی جا سکتا۔

پاکستان میں خشک زمین پر اور سمندر میں سینکڑوں موسمیات سے متعلق مشینیں اور آلات نصب ہیں جو بغیر رکے چوپیس گھنٹے کام کرتے ہوئے زمینی ماحول، سمندر کی سطح اور زیر زمین کے حالات سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔

ان مشینوں اور آلات سے معلومات اعداد و شمار، اشکال، تصاویر اور گرافس کی شکل میں حاصل ہوتی ہیں جو موسم، آب و ہوا اور آسمانی، سمندری اور زمینی آفات سے متعلق تجزیات، پیش گوئیوں، ایڈوائزریز اور انتباہات (وارننگز) کی تیاری کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

محکمہ موسمیات اور اس کے ذیلی اداروں کی مہیا کردہ معلومات کئی شعبوں میں استعمال کی جاتی ہیں جن میں زراعت، ہوا بازی، سمندری آمدورفت،  ماہی گیری وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ادارے قدرتی آفات سے متعلق بھی انتباہات جاری کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان مشینوں اور آلات میں اکثر خود کار ہیں اور انہیں استعمال کرنے کے لیے سٹاف کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم ان کی دیکھ بھال اور صفائی کے لیے انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔

عظمت حیات نے بتایا کہ پاکستان کا محکمہ موسمیات اور اس کے ذیلی ادارے پورے ملک میں قائم تقریباً سو سے ایک سو چالیس بیسز میں قائم مشینوں اور آلات سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسمیات سے متعلق معلومات خلا میں موجود مصنوعی سیاروں (سٹیلائٹس) سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زمین پر موجود مشینوں اور آلات میں موجودہ حالات میں خرابیوں کے پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ سورج کی روشنی کا ڈیٹا حاصل کرنے والے آلے میں حساس سنسرز نصب ہوتے ہیں جن کی باقاعدگی سے صفائی نہ ہونے کی صورت میں ان کی بیرونی سطح پر مٹی کے ذرات جمع ہو جاتے ہیں جو ان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی درستگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دور دراز علاقوں میں قائم زمینی سٹیشنز تک رسائی میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کے شمالی علاقوں بشمول گلگت اور ہنزہ میں گلیشیئرز پر نصب مشینوں اور آلات کی مثال دی جہاں تک رسائی صرف مئی سے ستمبر کے درمیان ممکن ہو تی ہے۔

انہوں نے کہا: 'اس وقت کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ملک میں پروازیں بند ہیں۔ اگر یہ سلسلہ طویل ہوتا ہے اور ہم ستمبر تک وہاں نہیں جا سکتے تو پھر اگلے سال مئی تک انتظار کرنا ہو گا۔'

تاہم فاروق ڈار نے دعویٰ کیا کہ زمینی سٹیشنز پر سٹاف نہ ہونے کی صورت میں بھی ایمرجنسی انتظامات رکھے جاتے ہیں اور کسی مشین میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں کسی کو وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر سب سے پہلا انتباہ اقوام متحدہ کی زمینی ماحول سے متعلق ایجنسی ادارہ برائے عالمی موسمیات (ڈبلیو ایم او) نے چند روز پہلے جاری کیا۔

ادارے کے سیکریٹری جنرل پیٹیری تالس کے مطابق: 'لاک ڈاؤنز کا مزید کچھ ہفتوں تک جاری رہنا موسمیات و آب و ہوا کی معلومات اکٹھی کرنے والے ان آلات اور مشینوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں ان مشینوں اور آلات کی دیکھ بھال اور ان میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنا اور اس مقصد کے لیے عملہ تعینات کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی آفات کے خطرات کی موجودگی میں کرونا وائرس کی وبا ایک اضافی چیلنج ہے جو کسی بھی ملک کے لیے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔

پیٹیری تالس نے ایک بیان میں دنیا کی حکومتوں کو کرونا وائرس کے بحران کے باوجود اپنی قومی ابتدائی انتباہ (وارننگ) اور موسم کی مشاہدہ کرنے کی صلاحیتوں پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔

پاکستان میں محکمہ موسمیات کے سربراہ ادارے ایوی ایشن ڈویژن کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق: 'اس وقت تو ساری توانائیاں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے پر صرف کی جا رہی ہیں۔ دوسری تمام چیزیں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔'

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ فی الحال موسمیات سے متعلق کسی بھی ادارے میں ان سے متعلقہ مشینوں یا آلات میں پیدا ہونے والی ممکنہ خرابیوں سے متعلق کوئی اقدام زیر بحث نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے اتفاق کیا کہ ایسے مسائل پیدا ہونے کی صورت میں صورت حال گمبھیر ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر محمد حنیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'اس صورت حال کا پاکستان پر برے اثرات پڑنے کا امکان بہت کم ہے۔'

انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں سے حاصل ہونے والی معلومات پاکستان اور یورپ کے درمیان چلنے والی پروازوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور ایسا صرف موسم سرما میں ہی ہوتا ہے جس میں ابھی کافی وقت پڑا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ممالک میں نصب موسمیات کے آلات اور مشینیں لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والے حالات سے متاثر ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسی تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان