بے یقینی کے ہاتھوں لکھوائی گئی ایک تحریر

آپ ٹرمپ، یلسن، پوتن، مودی اور عمران خان جیسے لوگوں کو بے بس دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو ٹی وی ایک ایسی بلا لگتا ہے جو آپ کو بھی نگل جائے گا، سوشل میڈیا سے آپ اکتا جاتے ہیں، گھر میں رہ کے آپ کو سمجھ نہیں آ رہی کس کا سر پھاڑیں۔ یہی اصل شاید زندگی ہے۔

(پکسابے)

اگر نومبر 2019 میں کوئی راہ چلتا انسان آپ کے پاس آتا اور آپ سے کہتا کہ دسمبر میں دنیا پر ایک ایسا عذاب آ رہا ہے جس سے بہت سارے لوگ مر جائیں گے، سب کام دھندے رک جائیں گے، دفتر بند ہو جائیں گے، جہاز کھڑے ہو جائیں گے، ٹرینیں جام ہوں گی، بسیں زنگ کھا جائیں گی لیکن کوئی چلا نہیں سکے گا، گاڑیاں بیٹری چالو رکھنے کے لیے سٹارٹ ہوں گی، سب آدم زاد گھروں میں بند ہو جائیں گے، بچے سہمے ہوئے پوچھتے رہیں گے کہ یہ عذاب کب ٹلے گا اور آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔

آپ خود اپنی برف جیسی جمی زندگی کو پگھلتا دیکھتے رہیں گے لیکن اس کا استعمال کوئی نہ آپ کو سمجھ آئے گا نہ آپ کے پاس ہو گا۔ اور وہ کہے کہ آپ ایسا کریں، فلاں پہاڑ پہ چلے جائیں اور پورا سال اکیلے گزاریں، آپ بچ جائیں گے۔ بھلے وہ آدمی کوئی نجومی نہ ہوتا، کوئی فقیر نہ ہوتا، کوئی ڈیٹا اینلسٹ نہ ہوتا، عام آدمی ہی ہوتا، لیکن کیا آپ اس کی بات کو اہمیت دیتے؟ نہیں، آپ نے دو منٹ سوچنا تھا اور پھر سر جھٹک کے اپنے کاموں میں لگ جانا تھا۔ زندگی بڑی فاسٹ تھی۔
اب کیا صورت حال ہے؟ آپ ٹرمپ، یلسن، پوتن، مودی اور عمران خان جیسے لوگوں کو بے بس دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو ٹی وی ایک ایسی بلا لگتا ہے جو آپ کو بھی نگل جائے گا، سوشل میڈیا سے آپ اکتا جاتے ہیں، گھر میں رہ کے آپ کو سمجھ نہیں آ رہی کس کا سر پھاڑیں۔ یہی اصل زندگی ہے۔

اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے کے انسان کتنے بے بس تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ سورج کی روشنی رات کے اندھیرے چیرتی ہے، انہوں نے سورج کو دیوتا مان لیا۔ انہوں نے سردیوں میں آگ کی حرارت محسوس کی،  آگ کو دیوی کا اوتار سمجھ لیا۔ پانی کو بدن صاف کرتے دیکھتا، اسے پیاس پجھاتے دیکھا، پانی مقدس قرار پایا۔ دیکھا کہ آسمانوں میں بجلی کڑکتی ہے، آسمانوں سے ہی پناہ مانگنا شروع کر دی۔ آپ ہی کی طرح بے یقینی میں وہ بیٹھے ہوتے تھے۔ اپنے غاروں میں، درختوں کی کھوہ میں، ٹیلوں کی اوٹ میں، اور بس زندگی کرنے کا سامان ڈھونڈتے رہتے تھے۔ موت ان کے سروں پہ بھی ایسے منڈلاتی تھی جیسے آج آپ کے سر پہ گھوم رہی ہے۔

تو جس جس چیز سے وہ ڈرتے گئے، اسے اپنا دیوی دیوتا مانتے گئے، اس کی عبادت کرنا شروع کر دی۔ پھر بہت سے خیالی دیوتا بھی بن گئے، وہ بتوں میں تبدیل ہو گئے۔ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ سب فیصلے اس دیوتا کے ہیں۔ جو آفت ہے وہی لا رہا ہے، جو اچھا کام ہو رہا ہے اس کے پیچھے بھی وہی ہے۔ سب سے بڑا فائدہ اس کام کا یہ ہوا کہ انہیں ایک کندھا مل گیا جس پہ وہ ہر اچھائی برائی کا بوجھ رکھ سکتے تھے۔

اب بارشیں ہوتیں تو یہ دیوتا کا قہر تھا، دھوپ کڑی ہوتی تو یہ اس کی ناراضگی کا نشان تھی، کوئی آفت آتی تو وہ لوگ اسی سے پناہ مانگتے کہ بھئی اب اس آفت کو دور کرو، لائے بھی تو تمہی ہو۔ فصلیں نہ ہوتیں تو اسی کے آگے جانوروں کا نذرانہ پیش کیا جاتا، فصلیں اچھی ہو جاتیں تو بھی انہی جانوروں کی شامت آتی۔ لیکن ان آفتوں نے، مصیبتوں نے، بے یقینی نے، انہیں ایک مستقل یقین کا تحفہ دیا۔

اسی وقت، اچانک، ایک بہت عجیب سا واقعہ ہوا ہے۔ دو سال پہلے ایک تصویر میں نے کمرے میں لگائی تھی۔ دروازے کے اوپر چھت سے قریب، کیل ٹھونکا اور تصویر کے پیچھے لگی رسی کو اس پر ٹانگ دیا۔ جو فریم کا نچلا حصہ تھا اسے دروازے کی اوپری چوکھٹ کا سہارا دے دیا۔ وہ تصویر تھوڑی سی آگے کو جھکی، خوبصورتی سے وہاں جم گئی۔ وہ ایک درویش سا ہے، وہی جیسے قونیہ کے درویش ہوتے ہیں، مولانا روم کے مزار والے، وہ رقص کی کیفیت میں ہے اور اس کے چاروں طرف مختلف علامتیں بنی ہوئی ہیں۔

کہیں چاند تارہ ہے، کہیں صلیب ہے، کہیں ہندی میں اوم لکھا ہے، کہیں صیہونی ستارہ بنا ہوا ہے، کہیں تاؤازم کا وہ پیپسی جیسا نشان ہے نقطوں والا، کہیں بدھ کا پنجہ ہے اور درویش جو ہے وہ ایسے دونوں ہاتھ پھیلائے، سفید چوغہ پہنے، آنکھیں بند کیے، اونچی لال ٹوپی ذرا سی ترچھی رکھے ہوئے لہرا رہا ہے، گھوم رہا ہے اور وہ سب نشان اس کے آس پاس ہیں۔ ابھی یہاں نہ کوئی زلزلہ آیا، نہ آندھی، نہ ہوا، نہ کسی نے کھینچ کے دروازہ بند کیا، بس بند کمرے میں ایکدم وہ تصویر دروازے کی اوپری چوکھٹ سے اتر کے لٹک سی گئی۔ زور سے کھڑ کھڑ کی آواز آئی وہ کیل وغیرہ پہ ٹنگے ہونے کے باوجود درویش چوکھٹ کا سہارا لینے سے انکاری ہو گیا، وہ جھول گیا۔ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب میں نے اوپر والا پیرا مکمل کیا تھا۔ یعنی آپ اگر یقین کرنے کے موڈ میں ہیں تو مان لیں کہ اس پیرے کا آخری لفظ لکھا اور درویش جھول گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دو سال پہلے لگائی تصویر آخر کس رفتار سے سرک رہی ہو گی جو آج لٹکی اور عین اسی وقت؟ چاہوں تو ابھی کمرے میں دو اگربتیاں جلا کر اگلے اشارے کے انتظار میں بیٹھ جاؤں اور چاہوں تو وہ تصویر دوبارہ وہیں ٹانگ دوں۔ زندگی آپ کو بس اتنا اختیار دیتی ہے۔ دو، تین یا چار راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب، وہ کر لیا تو بس چلتے جائیں۔ مگر حادثے، انہونیاں، وبائیں، سب ہر جگہ منہ پھاڑے آپ کے انتظار میں ہوتی ہیں۔

جیسے نومبر میں اگر اس انسان کا کہنا مان کر آپ پہاڑ پہ چلے جاتے تو اس ساری صورت حال سے بچ جاتے لیکن ہو سکتا ہے آپ وہاں بھی فوت ہو جاتے۔ سوچیں کہ پہاڑ کی چوٹی پہ بنا ایک کمرہ ہے، اس میں چند کتابیں ہیں، کھانے پینے کا سال بھر کا سامان ہے، چولہا موجود ہے، بستر لگا ہوا ہے۔ آپ کھاتے ہیں پیتے ہیں، پڑھتے ہیں، جب تنگ آتے ہیں تو اسی پہاڑ کے آس پاس درختوں میں واک کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ دور دور تک کوئی انسان نہیں ہے۔ کسی دن کوئی بھالو کھڑکی سے اندر جھانکتا ہے، آپ اسے دیکھ کے ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ چاند، تارے، تازہ ہوا، لہلہاتے درخت، بہترین موسم اور فل اکیلے آپ۔

ایک دن آپ سوتے ہیں اور صبح اٹھتے ہی نہیں۔ اب کیا کریں گے؟ ایک چیز کلئیر ہے۔ راستہ یہی بہتر تھا جس پہ آپ نے قدم رکھ دیا۔ نومبر 2019 کے بعد والی دنیا میں، کووڈ انیس کی دنیا میں۔ وہاں آپ اکیلے مرتے، یہاں مریں گے تو بہت سوں کے ساتھ مریں گے ورنہ بچ جانے کا چانس بھی ہے۔

اگر آپ تنگ آ کے سوچ رہے ہیں کہ مر ہی جائیں، تو وہ ہر وقت بندے کے ہاتھ میں ہے۔ ورنہ ایسا کریں کہ اٹھیں اور بجائے اگربتیاں جلانے کے، درویش کی تصویر پیار سے چوکھٹ پہ دوبارہ ٹانگیں اور ٹھنڈے ٹھنڈے یہ سوچنے لگ جائیں کہ جب کرونا ختم ہو گا اور وہی آدمی آپ کو دوبارہ مل گیا جس نے پہاڑ پہ جانے کی آفر کی تھی، تو کیا آپ کے رونگٹے کھڑے ہوں گے یا نہیں؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ